پاکستانی…تحریر محمد اظہر حفیظ


1947 میں میرے والدین اور انکے والدیں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور ہم پاکستانی کہلانے لگے۔ پاکستان ہی ہماری پہچان تھا۔ پھر وقت بدلنے لگا صوبائیت پرستی کو ہوا دی جانے لگی اور بنگلہ دیش بن کر پاکستان سے جدا ہوگیا۔ ان کے اپنے خدشات تھے اعتراضات تھے اور نفرتیں تھی۔ ہمیں وہیں سے سنبھل جانا چاہیے تھا۔ پر ہم وہ قوم نہیں ہیں جو پہلی غلطی سے سیکھ سکھیں۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں مختلف لسانی گروہ سامنے آنے لگے۔ کوئی مہاجر تھا ،کوئی پٹھان تھا، کوئی پنجابی تھا، کوئی کشمیری تھا، کوئی بلوچ تھا ، کوئی ہنزئی تھا، کوئی کلگتی تھا۔ کوئی ہزارہ تھا اور کوئی سرائیکی تھا۔ ان سب الگ الگ شناختوں کے اندر پاکستانی گم ہوگیا۔ میں بطور پاکستانی سارا پاکستان گھومتا تھا لوگ سوال کرتے تھے کہ پنجابی ہو۔ میں کہتا نہیں پاکستانی ۔
مجھے اس عمر میں پہنچنے کے باوجود آج تک مسلمان ہونے کے علاؤہ کوئی فرقہ نظر نہیں آیا ۔ میں چودہ سو سال پہلے والا مسلمان ہوں ۔ فرقے ،گروہ شاید اس کے بعد دریافت ہوئے۔ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہوں ۔ اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں ۔ مجھے انکے بعد آنے والے کسی بھی بشر سے کوئی دینی سروکار نہیں ہے۔ کلمہ گو کی حثیت سے ہی میں اگلے جہاں چلا جاؤں تو میرے لیے کافی ہے۔ مجھے کسی سے کسی فرقہ پر نہ بحث کرنی ہے اور نہ ہی مباحثہ نہ اس بنیاد پر میری کسی سے دشمنی ہے۔ ہاں جو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے صحابہ کے خلاف بات کرے گا تو اس کیلئے میں پھر شدت پسند مسلمان ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ اور میری جان،مال آل سب میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نثار۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ سیکورٹی کلیئرنس میں کئی گھنٹے ضائع ہوگئے جب وہ فرقہ پوچھیں تو میں کہوں کہ جی مسلمان ۔ وہ مختلف نام لیں۔ سنی، دیو بندی، وہابی یا شیعہ میر ا جواب مسلمان ہی تھا اور ہے۔ آخر تنگ آکر انھوں نے پوچھا والدین کا فرقہ کیا ہے عرض کیا انکا ذاتی معاملہ ہے مجھے کیا پتہ ان سے پوچھیں ۔ وہ کہاں ہیں میں نے قبرستان کا راہ دکھادی۔ کیا کوئی مسلمان صرف مسلمان نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح کیا ہم صرف پاکستانی نہیں ہوسکتے۔ کبھی پاراچنار میں حالات خراب ہو جاتے ہیں اور کبھی بلوچستان میں۔ پاکستان کا سکون لسانیت کی نظر ہوگیا۔اس کو ہوا کون دے رہا ہے ہمیں اس کو تلاش کرنا چاہیے۔ کل کچھ بھائی بلوچستان میں شہید کردئیے گئے جن کی تعلق ہمارے صوبہ پنجاب سے تھا وہ مزدوری کرنے وہاں گئے تھے ان کا بس یہی قصور تھا کیا۔ان شہید ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں کو کون کیسے سمجھائے گا کہ تم بھی پاکستانی ہو۔ پاکستان کے ہر صوبے میں مختلف صوبوں کے لوگ نوکریاں اور کاروبار کرتے ہیں کرنے بھی چاہیں انکا ملک ہے۔اس میں قابل اعتراض کیا بات ہے۔ کراچی اس کی بہترین مثال ہے جہاں سارے پاکستان کی نمائندگی ہے۔ وہ ایک شاندار پاکستان ہے۔
اگر ہمیں ذاتیات، لسانیات اور سیاسیات سے فرصت ملے تو ہمیں پاکستان کا سوچنا چاہیے۔ پاکستان ہے تو پاکستان کا صدر،وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس اور سب عہدیداران ہیں خدا نخواستہ اس کو کچھ ہوجاتا ہے تو کہاں صدر اور کہاں کے وزیراعظم اور کہاں کے آرمی چیف، خدارا رحم کیجیے پاکستانی بنیے اور پاکستان کو بچا لیجئے۔ یہی ہماری پہچان ہے اور ہماری جان ہے۔ جناب وزیراعظم صاحب، جناب آرمی صاحب اور جناب چیف جسٹس صاحب میں ڈر کر پاکستان میں نہیں رہنا چاہتا مجھے سر اٹھا کر آزاد پاکستان میں آزاد پاکستانی کی حثیت جینے کا حق دیا جائے اور اس کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں۔ یہ اس وقت کی شدید ضرورت ہے ۔ دشت گرد جہاں جس شکل میں بھی ہیں انکو واصل جہنم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ سب کے فون ٹیپ ہوتے ہیں، چیک ہوتے ہیں۔ یہ کچے کے ڈاکو کون سے کنکشن استعمال کرتے ہیں جن پر کوئی فائر وال نہیں ہے۔ اور جو ٹریس نہیں ہوتے۔ رحم کیجئے کچے اور پکے کے تمام ڈاکوؤں کو حتمی انجام تک پہنچائیں ۔ ملک کے حالات نارمل ہوں تو پھر سیاست اور بجلی کے بل کے دکھ روئیں گے۔ ابھی پاکستان اور پاکستانی دونوں کو بچائے یہ آپکی اہم ترین ذمہ داری ہے ۔ شکریہ