تحریک انصاف کا اندرونی تنازعہ : تحریر مزمل سہروردی


علیمہ خان اس وقت کے پی کے مختلف اضلاع کے دورے پر ہیں جہاں وہ ان ناراض کارکنوں سے مل رہی ہیں جو تحریک انصاف کی کے پی حکومت بالخصوص وزیر اعلی علی امین گنڈا پور سے ناراض ہیں۔ ویسے علیمہ خان اور علی امین گنڈا پور کے اختلافات کوئی نئے نہیں ہیں۔ کئی ماہ پہلے بھی ایک ٹوئٹر اسپیس کی آڈیو آئی تھی جس میں گنڈ اپور اور علیمہ خان کے درمیان احتجاج کے ایشو پر سخت بحث ہو رہی تھی۔

علیمہ خان فوری احتجاج شروع کرنے کا کہہ رہی تھیں جب کہ گنڈ اپور کا موقف تھا کہ جب تک عمران خان نہیں کہیں گے ہم احتجاج نہیں کریں گے۔ علیمہ خان کا موقف تھا کہ بانی تحریک انصاف اپنی ذات کے لیے احتجاج کرنے کا نہیں کہیں گے بلکہ ہمیں خود احتجاج کرنا ہوگا۔ گنڈا پور کا موقف تھا کہ اب اگراحتجاج کرنا ہوگا تو کفن سر پر باندھ کر نکلنا ہوگا۔ کوئی آسان احتجاج نہیں ہوگا۔ اس لیے جب تک بانی تحریک انصاف نہیں کہیں گے ہم شروع نہیں کریں گے۔ یہ بحث خاصی تندوتیز تھی۔

علیمہ خان نے اس سے پہلے بھی کئی بار ایسے بیان دیے ہیں انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بھی احتجاج کے لیے نہیں نکلے گا تو ہم اکیلے نکلیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اور ان کے گھر والے اکیلے ہی اڈیالہ کے باہر دھرنے پر بیٹھ جائیں گے۔

چاہے ان کے ساتھ کوئی بھی نہ بیٹھے۔ اس لیے ایسا نہیں کہ احتجاجی سیاست کے لیے علیمہ خان پہلی دفعہ بات کر رہی ہیں۔ان کا شروع سے موقف ہے کہ بانی تحریک انصاف کو جیل سے باہر نکالنے کے لیے تحریک انصاف کو ایک موثر احتجاجی تحریک چلانا ہوگی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سے تحریک انصاف کی لیڈر شپ متفق نہیں ہے۔وہاں کسی بڑی تحریک کے لیے ابھی کوئی ماحول نہیںہے۔ وہاں سنبھل کر چلنے کی بات ہے۔ وہاں نو مئی کا خوف ہے اور یہ سوچ مضبوط ہے کہ تحریک انصاف کسی نئے نو مئی جیسے احتجاج کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

اب اسلام آباد کے جلسے کے ملتوی ہونے سے ماحول گرم ہوا ہے۔ 21 اگست کو تحریک انصاف نے اسلام آباد میں جلسہ کا اعلان کیا ہوا تھا۔ لیکن اب کہانی سب کے سامنے ہے ۔ ویسے تو اعظم سواتی صبح سات بجے بانی تحریک انصاف کو جیل میں ملے اور جلسہ کے ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن اصل کہانی یہ ہے کہ گنڈا پور نے رات کو جیل میں ٹیلی فون پر عمران خان کو جلسہ ملتوی کرنے پر راضی کیا۔ اور پھر صبح اعظم سواتی ملے۔ اعظم سواتی کے ملنے سے پہلے ہی جلسہ ملتوی ہونے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ وہ صرف اعلان کرنے کا بہانہ بنانے کے لیے گئے۔

اس کے بعد علیمہ خان کی پھر آڈیو آئی جس میں انھوں نے کہا کہ جلسہ اسٹبلشمنٹ نے اپنے بندوں کے ذریعے ملتوی کروایا ہے۔ انھوں نے پھر علی امین گنڈا پور پر چڑھائی کی اور کہا کہ یہ سب اسٹبلشمنٹ سے ملے ہوئے ہیں۔ ان کے یہ ریمارکس تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں کچھ خاص پسند نہیں کیے گئے۔ لیکن چونکہ وہ بانی تحریک انصاف عمران خان کی بہن ہیں اس لیے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹرولز نے گنڈا پور کی بہت دھلائی کی اب تحریک انصاف کی سوشل میڈیا میں یہ عام گفتگو ہے کہ گنڈا پور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اور ان کی مرضی سے حکومت کر رہے ہیں۔

اس وقت علیمہ خان پہلی دفعہ پارٹی کارکنوں کے گھر جا رہی ہیں۔ ان کی بات سن رہی ہیں۔ پارٹی کارکن ان کو مل رہا ہے اور ان سے بات کر رہا ہے۔ ویسے تو تحریک انصاف کی قیادت کا موقف ہے کہ علیمہ خان کے پاس تحریک انصاف کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ اس لیے وہ تحریک انصاف کے تنظیمی معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتیں۔ لیکن انھوں نے تو براہ راست کارکنوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں وہ ان کے گھر جا رہی ہیں۔ اور کارکنوں کے گھر جانے کے لیے انھیں کسی عہدہ کی بھی ضرورت نہیں۔ آپ بغیر کسی عہدہ کے بھی کسی بھی کارکن کے گھر جا سکتے ہیں۔ میڈیا ان کے بیانات کو بہت اہمیت دے رہا ہے۔ میڈیا میں بات کرنے کے لیے بھی انھیں کسی عہدہ کی ضرورت نہیں۔ وہ عمران خان کی بہن ہیں اور یہ میڈیا اور کارکنوں کے لیے کافی ہے۔

اب سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا علیمہ خان تحریک انصاف کی قیادت کی بھی امیدوار ہیں۔ ایسے میں ان کی اور رف حسن کی چیٹ بھی لیک ہوئی ہے۔ بشری بی بی اور علیمہ خان کے اختلافات کی خبریں بھی نئی نہیں ہیں۔ اس حوالے سے ایک آڈیو پہلے بھی آچکی ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا بشری بی بی اور علیمہ خان کے درمیان روایتی نند بھاوج کے اختلافات ہیں یا یہ قیادت کے اختلافات ہیں۔ اب تو یہ بات طے ہے کہ بشری بی بی بھی مکمل سیاسی خاتون ہیں اور تمام سیاسی معاملات میں مکمل حصہ لیتی ہیں۔کیاقیادت کے ایشو پر بشری بی بی اور علیمہ خان کے درمیان چپقلش شروع ہے؟

محترمہ علیمہ خان چاہتی تو پنجاب کے دورے پر بھی نکل سکتی تھیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی کوئی قیادت بھی موجود نہیں ہے۔ پنجاب کے کارکن کے پی کے کارکن کی نسبت زیادہ لاوارث ہیں۔ میاں اسلم اقبال مفرور ہیں۔ حماد اظہر استعفی دے چکے ہیں۔ لیکن وہ پنجاب کو چھوڑ کر کے پی گئی ہیں۔ شاید کے پی میں گرفتاری کا کوئی خوف نہیں۔ آپ گنڈا پور کی جتنی مرضی مخالفت کر لیں لیکن وہ علیمہ خان کو گرفتار نہیں کر سکتے۔ جب کہ پنجاب میں تو فوری گرفتاری کا ڈر بھی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا بانی تحریک انصاف علیمہ خان کو روک دیں گے۔ انھوں نے پہلے بھی انھیں روکا ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بانی تحریک انصاف کو اپنی سیاسی جماعت میں باہمی اختلاف اور لڑائیاں پسند ہیں۔ کیا وہ اپنی بہن کو گنڈا پور کو چیلنج کرنے دیں گے۔ جیسے وہ شاہ محمود اور جہانگیر ترین کی لڑائی انجوائے کرتے تھے۔ اس لیے یہ اب دیکھنے کی بات ہے۔لیکن فی الحال سب علیمہ خان کو متبادل قیادت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ کیا وہ تحریک انصاف کی ،متبادل لیڈر ہو سکتی ہیں؟ بیرسٹر گوہر نے تو ثابت کر دیا ہے کہ ان میں ایسی کوئی صلاحیت نہیں ہے، وہ ڈمی تھے اور ڈمی ہیں۔

اس لیے وہ متحرک جگہ تو خالی ہے۔ علیمہ خان اور بشری بی بی دونوں یہ بات جانتی ہیں۔ علیمہ خان آزاد ہیں اس لیے نظر آرہی ہیں۔ صحیح میچ تو تب شروع ہوگا جب بشری بی بی بھی جیل سے باہر آجائیں گی اور اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں گی۔ لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ بانی تحریک انصاف نہ صرف جیل میں رہیں بلکہ ان کی مشکلات میں اضافہ بھی ہو۔ کیونکہ جب یہ صاف ہوگا کہ وہ مائنس ہو گئے ہیں تو ہی متبادل لیڈر کی لڑ ائی بڑھے گی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس