یہ عجب سلسلہ بنا کہ 78ویں یومِ آزادی سے پہلے دو بڑے واقعات رونما ہوئے۔ 8اگست کی شام ارشد ندیم نے اولمپکس کی 118 برسوں کی تاریخ میں پیرس میں جیولین تھرو کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جس پر اسے گولڈمیڈل عطا ہوا۔ اِس عظیم الشان فتح نے تقسیم شدہ قوم میں یک جہتی کی روح پھونک دی اور اس کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ پھر صرف چار دِن بعد قومی زندگی میں ایک ہیجان برپا کرنے والی یہ خبر آئی کہ فوج نے آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور بہت طاقت ور فوجی افسر کو حراست میں لے کر اس کا کورٹ مارشل شروع کر دیا۔ اِس خبر کے نشر ہوتے ہی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کرتوت مختلف حلقوں سے بیان کیے جانے لگے اور یوں محسوس ہوا جیسے وہ تمام تر خرابی کا ذمے دار اور ماسٹرمائنڈ ہو۔ اس نے لوٹ مار کا بازار گرم کرنے کے علاوہ فوج کے اندر بغاوت کو ہوا دینے اور پاکستان کی عدلیہ سے من پسند فیصلے حاصل کرنے کی سازشیں کیں۔
ماضی میں بھی جرنیلوں کے کورٹ مارشل ہوتے رہے ہیں، مگر اِس بار جو شور اٹھا ہے اور پل پل کی جو خبریں نشر ہو رہی ہیں، ان سے ایک ہیجان سا بپا ہے اور غیریقینی صورتِ حال مزید گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ تقریبا تمام ریاستی ادارے سخت آزمائش سے دوچار ہیں اور ان کا نظامِ احتساب یا تو بالکل غیرموثر ہو گیا ہے یا اس کا وجود سرے سے موجود ہی نہیں رہا۔ بلاشبہ ہمارے حالات بڑے مخدوش ہیں، مگر اتنے بھی نہیں کہ مایوسی کی چادر اوڑھ لی جائے۔ ہمارے ابلاغِ عامہ کے ذرائع کو سنسنی پھیلانے اور بڑھ چڑھ کر افسانہ تراشی سے اجتناب کرنا چاہیے کہ وقت بڑا نازک ہے اور معاملات حددرجہ حساس ہیں ۔ وطن کے سب سے منظم ادارے یعنی فوج پر سخت وقت آن پڑا ہے کہ بعض غیرذمے دار عناصر اس کا امیج خراب کرنے اور بیرونی دنیا میں اس کی بدنامی کی مہم چلا رہے ہیں۔ 9 مئی 2023 کے دن عسکری ادارے کو بہت زخم لگے ہیں ۔ ہمارے دشمنوں کی روزِ اول سے یہی کوشش رہی کہ پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ توڑ دیا جائے اور فوج کے اندر دھڑے بن جائیں۔ اِس طرح (خدانخواستہ) پاک فوج کا بھی وہی حشر ہو جائے جو عراق اور لیبیا میں ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی ایک ایسا ذہن پیدا ہوتا جا رہا ہے جو فوج کو تمام خرابیوں کا ذمیدار سمجھتا ہے، مگر اللہ تعالی کا شکر ہے کہ پاکستان کی عظیم اکثریت اپنی فوج کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے اور اِس امر پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ ہماری مسلح فوج پیشہ ورانہ معیار کے اعتبار سے دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہے اور اس کی ہیبت سے بھارت دبکا بیٹھا ہوا ہے۔ ہمارے ایٹمی سائنس دانوں کی بدولت پاکستان ایٹمی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی میں بھارت سے بہت آگے ہے۔ اِنہی اسباب سے پاکستان آزاد بھی ہے اور خودمختار بھی اور دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج پوری طاقت سے کھڑی ہیں۔
ہمارے تمام ادارے اِس وقت اصلاح طلب ہیں۔ عدلیہ کے اندر جو داخلی کشمکش جاری ہے، اس نے پاکستان کے اِس انتہائی اہم ادارے کی ساکھ بہت متاثر کی ہے اور سیاسی اور آئینی تنازعات ایک مہیب شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی جنہوں نے اپنے عہد میں اچھی روایات قائم کرتے ہوئے فل کورٹ کا نظام بحال کیا۔ انہی کے دور میں عدالتِ عظمی نے یہ اعتراف کیا کہ مسٹر بھٹو کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا تھا۔ وہ غیرمعمولی مقدمات جو برسوں سے سردخانے میں پڑے تھے، ان کی سماعت ہوئی اور اچھے فیصلے سامنے آئے، مگر چیف جسٹس صاحب جوشِ عمل میں کچھ زیادہ آگے نکل گئے۔ ان کے حکم سے فل کورٹ میں ہونے والے مباحث براہِ راست ٹی وی پر دکھائے جانے لگے۔ اِس کا عوام کو تو بہت فائدہ ہوا اور انہیں معلوم ہونے لگا کہ کس وکیل اور جج صاحب کی کیا ذہنی استطاعت ہے اور کون کون سے ایشوز اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں، لیکن بعض جج صاحبان نے یہ محسوس کیا کہ وہ عوام کے سامنے ننگے کیے جا رہے ہیں، اِس بنا پر وہ چیف جسٹس کے خلاف متحد ہو گئے اور ایک محاذ قائم کر لیا۔ اِس کے علاوہ یہ تقسیم ہائی کورٹس کے علاوہ نچلی عدالتوں میں بھی در آئی ہے اور پورا عدالتی نظام اپنا اعتبار کھوتا جا رہا ہے۔ اِس تکلیف دہ صورتِ حال کو تبدیل کرنے کیلئے ہماری پارلیمنٹ کو غیرمعمولی تدبر اور حکمت سے کام لینا ہو گا۔
اِس وقت جنرل (ر) فیض حمید کا کورٹ مارشل سب سے زیادہ موضوعِ گفتگو ہے جس کے بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ احتساب اِس طرح کیا جائے کہ تمام اداروں کا گند صاف ہو جائے اور ماضی کی غلطیوں کا ازالہ بھی کر دیا جائے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ بہت زیادہ پھیلنے کے بجائے غیرمعمولی حکمتِ عملی کے ساتھ بگڑے ہوئے معاملات سمیٹ لیے جائیں۔ یہ دونوں موقف اپنے اندر وزن رکھتے ہیں، مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہم آج کتنی اتھل پتھل کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ اربابِ اختیار کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ زخموں کے بھرنے کا اہتمام کیا جائے یا انہیں مزید کریدا جائے۔ بلاشبہ ایک حد تک آپریشن ضروری معلوم ہوتا ہے، مگر وہ بہت زیادہ اِحتیاط کا متقاضی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری ایک عزیزہ کے دانت میں ناقابلِ برداشت درد تھا، تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی اور روتے ہوئے وہ دانت ڈاکٹر صاحب کو دکھایا۔ انہوں نے غیرمعمولی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے برابر والا دانت نکال دیا جو بالکل ٹھیک تھا، چنانچہ ایک طرف دانت کا درد بڑھتا گیا اور دوسری طرف خون کا فوارہ بند کرنا دشوار ہو گیا۔ ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ ہم اپنی فوجی قیادت کو مشورہ دیں گے کہ وہ اپنے ادارے کو ہر بلا سے محفوظ رکھنے کیلئے پوری حکمت کے ساتھ چند ناگزیر اقدامات کرے اور یہ معلوم کرنے کیلئے نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جائے کہ فوج کے اندر فیض حمید جیسے کردار طاقت کے مرکز کیسے بن جاتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ