موجودہ سیاسی حالات اس قدر گھمبیر اور دگر گوں ہو چکے ہیں کہ ملک میں انارکی قابو سے باہر دکھائی دے رہی ہے ایک سیاسی جماعت کی حکومت سے کشیدگی، حکومت کی عدلیہ سے محاذ آرائی نے ملک کے ہر محب وطن شخص کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اپوزیشن اور عوام تو ٹھہرے ایک طرف حکمران جماعت سے وابستہ افراد بھی مضطرب اور پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر شخص مستقبل کی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے جوکہ انسان کو مایوسی اور ڈپریشن کی اس سطح پر لے جاتا ہے کہ جس سے فرد سے لے کر پورا معاشرہ بے عملی اور فراریت کی راہ پر چلا جاتا ہے جوکہ ملک وقوم کے لیے بے حد تباہ کن ہے۔ وطن عزیز کا صاحب شعور اور فہمیدہ طبقہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی، معاشی بحران،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اوپر سے ایک اور آفت کہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی میں خلل نے پڑھے لکھے نوجوانوں کے روزگار پر گہری ضرب لگائی ہے جو ملک کے لیے زرمبادلہ کما رہے تھے، وہ سب حالات کی سنگینی سے بے حد فکر مند ہیں۔ درد مند پاکستانی دانشور، معاشی ماہرین، سوشیالوجسٹ، غیر جانبدار سیاسی امور کے ماہرین، صنعت کار اور مختلف شعبوں سے وابستہ افراد دن رات اسی سوچ میں غرق ہیں اور بار بار حکمرانوں کو تجاویز دے رہے ہیں کہ ملک میں معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے سیاسی استحکام لایا جائے مگر حکمرانوں کی بے نیاز ی کی وجہ سے نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سن رہا۔ گوہر اعجاز بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے آئی پی پیز کے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر کر رہے ہیں شہباز شریف نے پانچ وزارتیں بند کرنے کی بات کی تھی مگر اب ان وزارتوں کے چند محکمے بند کر نے کو اصلاحات کا نام دیا جا رہا ہے۔ ملک کے طاقتور طبقے کو ورلڈ بینک کے بقول 17 ارب ڈالرز کی ناجائز مراعات ملتی ہیں مگر کوئی حکومت ان کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ حال ہی میں حکومت نے قانون پاس کیا تھا کہ جو ریٹائرڈ شخص دوبارہ جاب حاصل کرے گا وہ تنخواہ یا پنشن میں سے ایک لے گا مگر حال ہی میں جو سپریم کورٹ کے دو ججز کو ایڈہاک جج لگایا گیا ہے ان کو اس قانون سے مستثنی قرار دے دیا گیا ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے منحوس چکر میں نسل در نسل پھنسی ہوئی ہے ۔غریب اور ان کے بچے کس قدر بھی محنت کر لیں سرپٹ افراط زر کی وجہ سے ان کی حالت زار میں بہتری بڑی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ جب بھی مسلم لیگ کی حکومت آتی ہے تو یہ کبھی عدلیہ کے ججز تو کبھی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ان ججز اور آرمی کے چیفس کو انہوں نے خود ہی مقرر کیا ہوا ہوتا ہے۔ اس طرز عمل سے نہ صرف نواز شریف کو حکومت سے بار بار نکلنا پڑا بلکہ ملک بھی سیاسی بھنور میں پھنسا رہا۔ مارشل لا اور حکومت کے موجودہ بندوبست کی بڑی وجہ مسلم لیگ ن کا حکومت میں آکر اداروں سے ٹکراو کی پالیسی ہے، تا کہ ان کی حکومتی ناکامیوں پر عوام کی نظر نہ پڑے اور وہ بار بار سیاسی شہید بن کر عوام میں ہمدردی کا ووٹ لیتے رہیں۔ آج کی حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار دونوں ویسی قیادت فراہم کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے جو اس ملک کے عوام کو مسائل سے نکال سکے۔ ہم بڑے زور و شور سے وزیر خزانہ کو لائے کہ وہ اپنی پروفیشنل قابلیت سے معاشی مسائل کا کوئی بہتر حل پیش کریں گے مگر انہوں نے آئی ایم ایف کے پالیسی پیپر کو بجٹ کی صورت دے کر عوام کو تین سو ارب کے براہ راست اور چار سو ارب ٹیکسوں کے بالواسطہ بوجھ تلے دبا کر کچو مر نکال دیا ہے۔ دوسری طرف بجٹ کے سائز میں تیس فیصد اضافہ کر کے حکمرانوں کو مزید سہولیات سے نوازا دیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی سٹیک ہولڈر کے درمیان اسٹیبلشمنٹ ایک جامع آئینی پیکج طے کر وا دے تاکہ آرم ٹوسٹ کی ضرورت ہی نہ رہے۔ آج کے سیاسی ڈیڈ لاک سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ دو آڑھا ئی سال کے لیے قومی عبوری حکومت قائم کی جائے قوم کے بہترین دماغوں پر مشتمل سیاسی جماعتوں کے تجویز کردہ افراد پر مشتمل انتظامیہ تشکیل دی جائے جو شفاف انتخابات کرانے کی راہ ہموار کرے، عرصہ اقتدار چار سال کا ہو، کرپشن کی بیخ کنی میں ٹھوس اقدامات کرے۔ سوشل ایکشن پروگرام کے تحت غریبوں اور متوسط طبقے کے افراد کی زندگی آسان بنانے کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں تو شاہد اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل آئے اگر ہمارے بزرجمہروں نے اجتماعی قومی بصیرت کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات کو سنجیدگی سے حل نہ کیا تو داخلی اور خارجی حالات خراب سے خراب ہوتے جلے جائیں گے اور ہمارے پاس پچھتانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ درکار اصلاح کے لیے ہم اس وقت “اب یا کبھی نہیں” کی منزل پر کھڑے ہیں اور بطور قوم ہر فرد ہے ملت کا ستارہ ہونے کے ناطے قومی اتحاد و یگانگت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کیونکہ اصلاح احوال کے لیے ہمارے پاس غیر معمولی مہلت نہیں ہے ۔
بشکریہ روزنامہ 92