گوادر، تربت، پنجگور میں احساس زیاں : تحریر محمود شام


اقبال کو تو یہ فکر تھی کہ:

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

لیکن اقبال کے ہم جیسے شیدائی دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا آئینہ دکھارہا ہے۔ کارواں رواں دواں بھی ہیں۔ انکے دل میں زیاں کا احساس بھی ہے۔ 1958پہلے مارشل لا سے اب تک ایک تسلسل سے حالات کی نبض پر انگلیاں رکھنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں اضطراب کی لہریں مشاہدہ کرتے آرہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بہت سے دوست بھی یاد آتے ہیں۔ ڈھاکا کا پلٹن میدان، موتی جھیل، پریس کلب، شاہ باغ ہوٹل، انٹر کانٹی نینٹل، دھان منڈی، ڈھاکا چھاؤنی ہم نے کیا کچھ کھودیا۔ کچھ دنوں سے بنگلہ دیش میں پھر پاکستان سے محبت جاگ اٹھی ہے۔ بھارت کے خلاف جذبات بھڑک رہے ہیں۔ مگر ہم مغربی پاکستانی اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اس لیے اجتماعی طور پر اپنے سابق اکثریتی حصّے میں اس بیداری سے کوئی فائدہ نہیں اٹھارہے۔ مسلم بنگال، مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش زخم زخم ہے۔ ہمیں بلارہا ہے۔ لیکن ہم اپنا ملّی فریضہ ادا نہیں کررہے ہیں۔ مادام اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکا کے بعد بڑے تکبر سے کہا تھا۔ ’’ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے‘‘۔ مگر ہندوستان کے متعصب حکمرانوں بالخصوص شری نریندر مودی نے اپنے ’’ہندوتوا‘‘ سے دو قومی نظریے کو زندہ کر دیا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں راشٹریہ سیوک سنگھ آر ایس ایس کے بلوائی جس طرح نہتے مسلمانوں پر پولیس کی سرکردگی میں ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جس طرح مسلمان با حجاب بیٹیوں کو شدت پسند ہجوم نرغے میں لیتے ہیں۔ تو زمین آسمان پکار اٹھتے ہیں کہ ’’مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں‘‘۔ یہ تعصب ہندوستان کے جمہوری تسلسل کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ سیکولرازم کے دعوے کو بھی گنگا جمنا میں غرق کردیتا ہے اس سال کے انتخابات میں ہندوستان کے عوام نے ہندوتوا کو دفن کرنے کی کوشش کی ہے۔

بنگلہ دیش اور بھارت کے عوام کی اکثریت میں بیداری کی یہ لہر پاکستان کے درد مند اور انسانیت نواز حلقوں کیلئے ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔ ان تاریخی لمحات میں وقت کے دھارے کو امن اور انسانیت کی سربلندی کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے اپنے ہاں استحکام اور یگانگت کیلئے روڈ میپ بنانا ہوگا۔ تاریخ پاکستان کے حکمران حلقوں کو للکار رہی ہے۔ فارم 47کے ذریعے حکمرانی حاصل کرنے والوں کا بھی فرض ہے۔ انکے سرپرستوں کا بھی کہ اپنے لوگوں کے اضطراب کو سمجھیں۔ ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دے کر ہی پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے۔ صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بے اثر کرنےکیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس نہ بلائیں۔ بلوچستان میں اس وقت جس طرح کارواں درکارواں نوجوان، بزرگ، مائیں، بہنیں پُر امن اور منظم طریقے سے شہر در شہر اپنے کرب کا اظہار کر رہی ہیں، بڑے بڑے اجتماعات ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اچانک ہجوم لے کر نہیں چل پڑی ہے۔ انہوں نے مئی میں پریس کانفرنس کی۔ اپنے مسائل کی طرف توجہ دلائی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ہماری بہن، ہماری بیٹی تو خود اسلام آباد پہنچی تھی۔ حالانکہ یہ اسلام آباد کا فرض ہے کہ جہاں جہاں لوگ مضطرب ہوں۔ وہاں اسلام آباد خود پہنچے۔ انکی سنے اور جمہوری ادارے موجود ہیں۔ پہلے تو بلوچستان کی صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو 1967 میں اسی لیے وجود میں آئی تھی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نشانِ پاکستان نے ملک کے مظلوموں، پامالوں، ناداروں، ہاریوں مزدوروں، طالب علموں کے اضطراب کو دور کرنے۔ آمریت کے لگائے زخموں کو مندمل کرنے کیلئے یہ پارٹی قائم کی تھی۔ 1967کی نئی پارٹی 2024میں سب سے پرانی پارٹی ہوگئی ہے۔ بلوچستان میں اس کی حکومت ہے۔ گوادر، تربت، پنجگور اور دوسرے شہروں میں جب ہمارے بلوچ بھائی بہنیں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں تو یہ بلاول بھٹو زرداری کیلئے ایک ناگزیر سیاسی موقع ہے کہ وہ اپنی صوبائی حکومت کی تقویت کیلئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے ملنے کے لیے مکران پہنچیں۔ ان کے نانا خود ان علاقوں میں جاتے تھے۔ ان کی والدہ بھی بلوچوں سے حال احوال کیلئے جاتی تھیں۔

بلوچستان پاکستان کی جان ہے۔ ہمارا اقتصادی مستقبل ہے۔ وہاں کے ماہی گیر، مزدور، کسان، طالب علم ہماری طاقت ہیں۔ بلوچستان کے دشت، پہاڑ، سونا تانبا یورینیم قیمتی دھاتیں لیے فرہاد کے تیشے کے منتظر ہیں۔ خوشحالی کی شیریں پاکستان کو اسی صورت مل سکتی ہے کہ ہم ان فرہادوں کے تیشے کو صیقل کریں۔ یہ جلوس تو ہمیں مسائل کی شناخت کروا رہے ہیں۔ وہ مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ بلوچستان زخم زخم ہے۔ صدیوں سے ان ریگ زاروں، بنجر پہاڑوں کے دامن میں رہنے والوں کی آوازیں سنی جائیں۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ٹھیکیدار زمین کی ان بیٹیوں کے ساتھ بیٹھیں۔ میں نے تو بلوچستان کے کئی اضلاع کے جواں عزم جواں سال ڈپٹی کمشنروں کے تمتماتے ماتھے دیکھے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قدرت اللہ شہاب سے کم دانشمند نہیں ہے۔ جن کی ڈپٹی کمشنر کی ڈائری بہت دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے۔ ایک مستحکم جمہوری ریاست کے انتظام میں ڈپٹی کمشنر کا منصب سب سے اہم اور حساس ہے۔ اگر ملکی قوانین اور ضابطوں کے مطابق ایک ڈپٹی کمشنر کو اپنا پورا اختیار برتنے دیا جائے تو مسائل مقامی طور پر ہی سلجھ سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کیلئے انجمنیں قائم ہیں۔ 8 مارچ کو عورت کا دن منایا جاتا ہے۔ مغربی دنیا لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیتی ہے۔ بلوچستان میں امن، یگانگت، انصاف، سماجی استحکام کیلئے تو چند قابل احترام خواتین ہی ایک طویل عرصے سے سڑک پر نکلی ہوئی ہیں۔ کیا مریم نواز ملکی مفاد میں پاکستان کی سلامتی کیلئے ان خواتین کا دکھ نہیں جاننا چاہیں گی۔ کیا پاکستان کی خاتون اوّل آصفہ بھٹو زرداری نہیں چاہیں گی کہ ان بہنوں سے ہم سخن ہوں، ان کا درد جانیں۔ صدر آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، وزیرا عظم میاں شہباز شریف۔ کئی مہینوں سے نکلتے ان جلوسوں کے مطالبات جاننے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ایک مملکت کے کسی ایک شہری کو بھی عدم تحفظ کا احساس ہو تو حکمرانوں کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس احساس کو دور کریں۔ یہاں تو بڑی تعداد میں مائیں بہنیں بزرگ عدم تحفظ کا اظہار کر رہے ہیں۔ لاپتہ نوجوانوں کیلئے ان کے ماں باپ بچے آوازیں بلند کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ جماعتی، سرکاری، سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطالبات غور سے سنے۔ آغاز حقوق بلوچستان کی تکمیل اسی صورت میں ہوگی۔ یہ سیاسی اور اقتصادی اضطراب ہے۔ اسے سیکورٹی کامسئلہ قرار نہ دیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ