فلسطینی مہاجرین کے لیے وقف اقوامِ متحدہ کے فلاحی ادارے انرا کے سربراہ فلپ لازارانی کے مطابق غزہ کے تمام سوا چھ لاکھ طلبا کا تعلیمی سال ضایع ہو چکا ہے۔یہ تعداد غزہ میں رہنے والے تئیس لاکھ فلسطینیوں کا ایک چوتھائی ہے۔یہ واضح نہیں کہ آیا ان سوا چھ لاکھ طلبا میں وہ ساڑھے سولہ ہزار اسکولی بچے بھی شامل ہیں جو پچھلے دس ماہ میں شہید کر دیے گئے اور وہ چالیس ہزار سے زائد طلبا بھی شامل ہیں جو زخمی ہوئے یا اب تک لاپتہ ہیں۔غزہ میں اس برس پہلی بار میٹرک کے سالانہ امتحانات منعقد نہ ہو سکے۔ان میں چالیس ہزار طلبا کو بیٹھنا تھا۔
سات اکتوبر کے بعد سے اب تک دربدر بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں میں سے اکثر نے اسپتالوں ، عبادت گاہوں اور اسکولوں میں پناہ لی۔مگر ان کے لیے ان پناہ گاہوں میں بھی پناہ کہاں ؟
چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق تعلیمی اداروں کو کسی بھی نوعیت کی جنگ میں براہِ راست نشانہ بنانا جنگی جرائم میں شامل ہے۔مگر مقبوضہ فلسطین سے متعلق اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی فرانچسکا البنیز کا کہنا ہے کہ امریکی اور یورپی ہتھیاروں سے مسلح اسرائیل نے تاک تاک کر ایک ایک محلے ، اسپتال ، اسکول ، پناہ گزین کیمپ اور سیف زون کو نشانہ بنایا۔ اگر یہ نسل کشی نہیں تو پھر نسل کشی کیا ہوتی ہے ؟
یونیسیف کے مطابق چھ جولائی تک اسرائیل نے پانچ سو چونسٹھ اسکولوں کو براہ راست نشانہ بنایا۔ ان میں تین سو نو سرکاری اسکول ، ایک سو ستاسی اقوامِ متحدہ کے تحت چلنے والے اسکول اور اڑسٹھ نجی اسکول شامل ہیں۔جب کہ جولائی سے اگست کے وسط تک پندرہ مزید اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تازہ ترین حملہ گزشتہ ہفتے ال تلبینی اسکول پر کیا گیا۔سو سے زائد عورتیں اور بچے شہید ہوئے۔اکثر کی لاشیں اس بری طرح جل کے ریزہ ریزہ ہو گئیں کہ رضاکاروں نے لواحقین کو سرمہ ہونے والی ہڈیاں تھیلوں میں بھر کے دیں اور تلقین کی کہ فرض کر لیں کہ یہ ان کے پیارے کی لاش ہے۔اس حملے میں جو بم استعمال ہوئے ان کے سبب تین پورے پورے خاندان راکھ کی صورت فضا میں تحلیل ہو گئے۔
غزہ کے پچانوے فیصد تعلیمی ادارے کلی یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔مگر آفرین ہے رضاکاروں پر کہ جہاں جہاں بے گھروں کا قافلہ عارضی پناہ کے لیے رکتا ہے وہاں وہاں اگلے پڑاو تک ایک عارضی اسکول کسی خیمے میں یا کھلے آسمان تلے قائم ہو جاتا ہے تاکہ کچھ نہ کچھ تعلیمی سسلسلہ برقرار رہے۔ شدید خطرات کے درمیان تعلیمی تسلسل جس حد تک ممکن ہو قائم رکھنا بھی جہاد اور غاصب کے خلاف مزاحمت کی ایک شکل ہے۔
یہ مزاحمت انیس سو اڑتالیس سے جاری ہے جب ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بندوق کی نوک پر نکال کے ہمسائیہ ممالک کی جانب ہنکال دیا گیا اور انھوں نے کیمپوں میں سامان زمین پر اتارتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اپنے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم کی اہمیت اگلی نسل کے ڈی این اے کا حصہ بنتی چلی گئی۔آج آسمان تلے چھت نہ ہونے کے باوجود فلسطینیوں کا شمار سب سے زیادہ خواندہ قوموں میں ہوتا ہے۔( لگ بھگ سو فیصد شرح ِ خواندگی )۔
ہر برس میٹرک کا امتحان توجیح کے نام سے منعقد ہوتا ہے اور جو کامیاب ہوتے ہیں انھیں اعلی تعلیم کی بہتر درس گاہوں تک رسائی مل جاتی ہے۔ اس برس غزہ کے بچوں نے دس ماہ سے بجلی منقطع ہونے کے باوجود چاندنی اور موبائیل فون ٹارچ کی روشنی میں پڑھائی کی۔ ان کا تعلیمی سال تو ضایع ہو گیا البتہ محنت ضایع نہیں ہوئی۔فلسطینی تعلیمی حکام کا کہنا کہ جب بھی جنگ کا خاتمہ ہوا ان بچوں کے لیے خصوصی امتحان منعقد ہو جائے گا۔
اسرائیل کو جہاد بذریعہ تعلیم کا پوری طرح ادراک ہے۔اسی لیے سات اکتوبر کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پارلیمنٹ بلڈنگ ، یونیورسٹی کیمپسز اور تمام قابلِ ذکر ثقافتی اور تعلیمی اداروں کو بطورِ خاص نشانہ بنایا۔تاکہ فلسطینی بچوں کو ان کی تاریخ اور شناخت سے محروم کیا جا سکے۔ان کا حال بے حال اور مستقبل تاریک ہو سکے۔کیونکہ تعلیم بھکاری بنانے سے روکتی ہے۔تعلیم اپنے پاوں پر کھڑا ہو کر ایک بار پھر راکھ کے ڈھیر سے مستقبل دریافت کرنے کی جستجو عطا کرتی ہے۔اور یہ کہ شعور کو مرنے نہیں دیتی اور غلامی اور آزادی میں حدِ فاصل جاننے کی تمیز دیتی ہے۔
آج غزہ میں مستقبل کے ننھے ننھے ڈاکٹر ، انجینئر اور مدبر اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے دن میں کھٹی میٹھی اشیا بیچتے ہیں جو ان کی مائیں انھیں بنا کے دیتی ہیں تاکہ یہ بچے تب تک مصروف رہیں جب تک دوبارہ اسکول نہیں جاتے۔ اور انھیں تربیت مل سکے کہ محنت کی عادت سے تاریکی سے بھی روشنی کیسے کاڑھی جاتی ہے۔
اگست میں تعلیمی سال مکمل ہوتا ہے اور ستمبر سے نیا سال شروع ہوتا ہے۔عام حالات میں اگست تعلیمی نصاب اور نئے بستوں کی خریداری کا مہینہ ہے۔مگر اس اگست میں غزہ کے یہ بچے کورس کی کتابوں اور نئے بستوں کے بجائے خوراک اور پانی کی تلاش میں مارے مارے گھوم رہے ہیں۔
غزہ میں محض بچے ہی نہیں مرے بلکہ تیس سو سے زائد اسکول و کالج کے اساتذہ بھی شہید ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں غزہ کے سیکڑوں اساتذہ اور تعلیمی عملے نے تماشائی دنیا کو ایک کھلا خط لکھا ہے۔
اس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم ایک بار پھر یہ تعلیمی ادارے پہلے کی طرح کھڑے کر لیں گے۔ہم اگلی نسل کو یہ مشعل منتقل کریں گے جو آج زمین پر عمارت کی شکل میں نہ سہی مگر ہمارے دل و دماغ میں ہمیشہ کی طرح روشن ہے۔جو تعلیمی ادارے آج تباہ ہو رہے ہیں وہ بھی تو کئی عشروں پہلے حالتِ بے گھری میں کسی خیمے یا کھنڈر میں ہی شروع ہوئے تھے۔ایک بار پھر ہم ایسا ہی کریں گے۔کوئی مخیر فلسطینی جس کے پاس کسی اور فلسطینی سے زائد اضافی وسائل ہیں اس نے کل بھی ہمیں مایوس نہیں کیا اور آنے والے کل میں بھی مایوس نہیں کرے گا۔ہم آج کے خیموں اور ملبے سے ایک بار پھر نئی درس گاہیں اور ان درس گاہوں سے پہلے سے زیادہ قابل نسل پیدا کر دکھائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس