وطن عزیز آزادی کے77ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ قائد اعظم نے جو پاکستان حاصل کیا تھا اور جس کے لیے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دی گئیں وہ آزادی کے چوبیس سال بعد ہی ایک بازو سے محروم ہو گیا۔ مگر ہم نے اس قومی سقوط سے بھی کچھ نہ سیکھا اور ہم آج تک ہجوم سے ایک قوم نہ بن سکے۔ نامور تاریخ دان ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے “ہمارے معاشرے کو پسماندہ رکھنے کی شعوری کوششیں کی گئی ہیں۔ وسائل زندگی کی غیر منصفانہ تقسیم نے معاشرے کے غالب حصے کو اقتدار اور اختیار سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اشرافیہ اور عوام کے لیے دو الگ الگ نظام ہائے تعلیم نے مٹھی بھر افراد کو حاکم اور اکثر یت کو محکوم بنا دیا ہے ۔سیاسی جماعتیں صحیح معنوں میں سیاسی جماعتیں نہیں بن پائیں۔ آئینی اور قومی ادارے مستحکم ہو سکے اور نہ ہی ملک میں کوئی مضبوط سول سوسائٹی وجود میں آسکی ہے ۔ پاکستان میں معاشرتی اصلاح کی کبھی کوئی ہمہ گیر کوشش نہیں ہوئی ۔ ہمارے ہاں نہ تو حقیقی معنوں میں زرعی اصلاحات ہوئیں، نہ فیوڈل ازم کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی صنعتی انقلاب کی ٹھوس بنیاد رکھی گئی۔ ریاستی ادارے اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے آج بھی ان کے محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔” ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنے ہوں گے تحریک پاکستان کی بنیاد چار اصولوں پر رکھی گئی تھی 1_نظریاتی قومیت 2_اسلام 3-جمہوریت 4_ عدل اجتماعی بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لیکر آج تک ان چاروں اصولوں کے حوالے سے ہمارا قومی طرز عمل کنفیوژن کا شکار رہا یا پھر منافقت کا ۔ تحریک پاکستان کے دوران ہم نے نظریاتی قومیت کا نعرہ بلند کیا جو دو قومی نظریے کی شکل اختیار کر گیا۔ ہمیں آج یہ ماننا پڑے گا کہ آئینی طور پر پاکستان ایک مسلم نیشن سٹیٹ ہے جہاں غیر مسلموں کو جو پاکستانی قومیت رکھتے ہیں مسلمانوں کے برابر شہر ی حقوق حاصل ہیں۔ مخلوط انتخابات میں ان کا ووٹ مسلمان ووٹر کے برابر ہے لہذا آج کے نظریہ پاکستان اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان کا ہندو اور مسلمان پاکستانی قومیت کے حامل ہیں اور ہندوستان کا ہندو اور مسلمان ہندوستانی قومیت کے حامل ہیں اور دونوں کو اپنے اپنے ملک کے آئین اور قانون کے مطابق شہری حقوق ملنے چاہئیں۔ تحریک پاکستان کی دوسری بنیاد اسلام ہے اگر چہ پاکستان مسلمانوں کی معاشی آزادی کے تحفظ کے لیے قائم ہوا مگر جب دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام کو قرار دیا گیا تو لامحالہ پاکستان بننے کے بعد ہم اپنی قومی زندگی سے اس کو کیسے خارج کر سکتے تھے کیسے سیکولر ازم کو اپنا سکتے تھے؟ قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران متعدد مواقع پر کہا کہ ہم نئے ملک کی تعمیر اور دستور سازی میں قرآن اور اسلام سے راہنمائی لیں گے تا ہم بدقسمتی سے ہم پاکستان کے حیات اجتماعی کے کسی ایک شعبے کی بھی تشکیل نو اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق نہیں کر پائے اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں اتنی اہلیت ہی نہیں رہی ہے کہ وہ پاکستان کی حیات اجتماعی کی تشکیل اسلامی جمہوری اصولوں کے مطابق کرتے ۔ ان کے مفادات ان کو اس کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق قوانین بنائیں اور ان کا عملی اطلاق کر پائیں۔ بھٹو کے خلاف انتخابی دھاندلی کی تحریک کو نظام مصطفی کی تحریک بنا دیا گیا اسلام کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جو اسلامی دفعات آئین میں شامل بھی کرائی گئیں ہیں ان کا غلط استعمال کیا گیا۔ تیسرا پاکستان میں کبھی جمہوریت حقیقی معنوں میں نافذ ہی نہیں ہوئی ہے سیاسی جماعتیں خاندانی کارپوریٹ باڈیز ہیں ہر پارٹی کے سربراہان اور ان کے خاندان کے افراد نسل در نسل اقتدار حاصل کرتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے خوب لوٹ مار کرتے ہیں ۔جس ملک میں تیس سال مارشل لا، چالیس سال نیم جمہوری حکومتیں اورآٹھ سال سے ہا ہبریڈ نظام حکومت چل رہا ہو وہاں کیسے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا کلچر آسکتا ہے۔ قبائلی نظام کی طرح کبھی ایک سیاسی دھڑا اپنے عدالتی اور ریاستی مددگاروں سے اقتدار حاصل کرتا ہے تو کبھی دوسرا گروہ اور اس سیاسی عدم استحکام اور گروہی مفادات کی جنگ میں عوام کا کیا حال ہو چکا ہے اس کی کسی با اختیار کو فکر نہیں۔ کبھی عدالتوں پر حملے اور کبھی ججوں کی توہین اور تضحیک تو کبھی عدالتی فیصلوں کو نہ ماننے کا چلن ۔ان حالات میں کیسے کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے اور عوام کے جینوئن نمائندے اس ملک کو ویلفیئر سٹیٹ بنانے کی کوشش شروع کر یں گے جو تحریک پاکستان کا سب سے اہم مقصد تھا ۔آج ہمارے ملک کے 10 کڑور افراد غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے نوے فیصد افراد دو وقت کی روٹی کے حصول کے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر حکمرانوں کی نااہلیوں کی وجہ سے ملک آئی ایم ایف کے شکنجے ہے۔ لوگوں پر ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی نے عوام کی اکثریت کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ جب تک تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو سیاست کے میدان میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملے گی اور ریاستی ادارے پاکستان کے مفاد کو مقدم نہیں جانیں گے تب تک ایک حقیقی وفاقی نظام وجود میں نہیں آئے گا جو مختلف قوموں کے مختلف وحدتوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ پاکستانی ہجوم کو ایک قوم کی لڑی میں پرو دے۔ ہمارے معاشرے میں کئی معاشرے مختلف جزیروں پر آباد ہیں مگر اکثریت slums میں آباد ۔ ہر طرح کی ضروریات زندگی سے محروم ہے یہ داخلی عدم مساوات ختم کیے بغیر کیسے خالی خولی نعروں سے پاکستان میں بسنے والوں ایک قوم بنایا جا سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہر شعبہ زندگی چاہے سیاست ہو معیشت ہو تعلیم اور روزگار ہو حتی کہ کھیلوں کی دنیا ہو سب کو زندگی میں آگے بڑھنے کے میرٹ پر یکساں مواقع دستیاب ہوں تو تب ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہو نگے۔
بشکریہ روزنامہ 92