وطن عزیز آزادی کے آٹھتہرویں سال میں داخل ہو چکا ہے قائد اعظم نے جو کٹھا پھٹہ پاکستان حاصل کیا تھا اور جس کے لیے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دی گئیں تھیں وہ آزادی کے چوبیس سال بعد ہی ایک بازو سے محروم ہو گیا مگر ہم نے اس قومی سقوط سے بھی کچھ نہ سیکھا اور ہم آج تک ہجوم سے ایک قوم نہ بن سکے نامور تاریخ دان ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے “ہمارے معاشرے کو پسماندہ رکھنے کی شعوری کوششیں کی گئ ہیں وسائل زندگی کی غیر منصفانہ تقسیم نے معاشرے کے غالب حصے کو اقتدار اور اختیار سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اشرافیہ اور عوام کے لیے دو الگ الگ نظام ہائے تعلیم نے مٹھی بھر افراد کو حاکم اور اکثر یت کو محکوم بنا دیا ہے سیاسی جماعتیں صحیح معنوں میں سیاسی جماعتیں نہیں بن پائیں آئینی اور قومی ادارے مستحکم نہیں ہو سکے اور نہ ہی ملک میں کوئی مضبوط سول سوسائٹی وجود میں آسکی ہے جو سیاسی عمل کو جمہوری اصولوں کے مطابق رواں دواں رکھنے کی پشت بانی کا کام کرتی پاکستان میں معاشرتی اصلاح کی کبھی کوئی ہمہ گیر کوشش نہیں ہوئی ہمارے ہاں نہ تو حقیقی معنوں میں زرعی اصلاحات ہوئیں، نہ فیوڈل ازم کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی صنعتی انقلاب کی ٹھوس بنیاد رکھی گئی ہے اور نہ ہی کوئی تعلیمی انقلاب برپا ہوا ہے ریاستی ادارے اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے آج بھی ان کے محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں” ڈاکٹر صاحب کے ‘کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں طاقتور طبقوں کے سٹیٹس کو نے پاکستان کے عوام کو کبھی بھی حقیقی آزادی کی نعمتوں سے ثمر بار نہیں ہونے دیا ہے
ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنے ہوں گے تحریک پاکستان کی بنیاد چار اصولوں پر رکھی گئی تھی 1_نظریاتی قومیت 2_اسلام 3-جمہوریت 4_عدل اجتماعی
بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لیکر آج تک ان چاروں اصولوں کے حوالے سے ہمارا قومی طرز عمل کنفیوژن کا شکار رہا یا پھر منافقت کا _تحریک پاکستان کے دوران ہم نے نظریاتی قومیت کا نعرہ بلند کیا جو دو قومی نظریے کی شکل اختیار کر گیا پاکستان قائم ہو گیا مگر ہم اس مخمصے سے باہر نہ آسکے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے یا قومی ریاست ہے ہمیں آج یہ ماننا پڑے گا کہ آئینی طور پر پاکستان ایک مسلم نیشن سٹیٹ ہے جہاں غیر مسلموں کو جو پاکستانی قومیت رکھتے ہیں وہ مسلمانوں کے برابر شہر ی حقوق رکھتے ہیں مخلوط انتخابات میں ان کا ووٹ مسلمان ووٹر کے برابر ہے لہذا آج کے نظریہ پاکستان اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان کا ہندو اور مسلمان پاکستانی قومیت کے حامل ہیں اور ہندوستان کا ہندو اور مسلمان ہندوستانی قومیت کے حامل ہیں اور دونوں کو اپنے اپنے ملک کے آئین اور قانون کے مطابق شہری حقوق ملنے چاہئیں تحریک پاکستان کی دوسری بنیاد اسلام ہے اگر چہ پاکستان مسلمانوں کی معاشی آزادی کے تحفظ کے لیے قائم ہوا مگر جب دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام کو قرار دیا گیا تو لامحالہ پاکستان بننے کے بعد ہم اپنی قومی زندگی سے اس کو کیسے خارج کر سکتے تھے کیسے سیکولر ازم کو اپنا سکتے تھے؟ قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران متعدد مواقع پر کہا کہ ہم نئے ملک کی تعمیر اور دستور سازی میں قرآن اور اسلام سے راہنمائی لیں گے تا ہم بدقسمتی سے ہم پاکستان کے حیات اجتماعی کے کسی ایک شعبے کی بھی تشکیل نو اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق نہیں کر پائے ہیں اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں اتنی اہلیت ہی نہیں رہی ہے کہ وہ پاکستان کی حیات اجتماعی کی تشکیل اسلامی جمہوری اصولوں کے مطابق کرتے اور نہ ہی ان کے مفادات اور لائف سٹائل ان کو اجازت دیتا تھا کہ وہ وہ قرآن و سنت کے مطابق قوانین بنائیں اور ان کا عملی اطلاق کر پائیں ہم نے اپنی سیاست میں مذہب کا خوب استعمال کیا، بھٹو کے خلاف انتخابی دھاندلی کی تحریک کو نظام مصطفی کی تحریک بنا دیا گیا اسلام کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا سود کو لین دین میں ختم کرنے کی بجائے مفتیو ں کو بھاری بھر کم تنخواہوں کے عوض بنکوں نے ملازم رکھ کر سودی لین دین کو اسلامی بنکنگ کا نام دے دیا اور جو اسلامی دفعات آئین میں شامل بھی کرائی گئیں ہیں ان کا غلط استعمال کر کے اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں جس سے مہذب دنیا میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم زبردستی اپنا عقیدہ غیر مسلموں پر لاگو کرتے ہیں تیسرا پاکستان میں کبھی جمہوریت حقیقی معنوں میں نافذ ہی نہیں ہوئی ہے سیاسی جماعتیں خاندانی کارپوریٹ باڈیز ہیں ہر پارٹی کے سربراہان اور ان کے خاندان کے افراد نسل در نسل اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ بن کر اقتدار حاصل کرتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے خوب لوٹ مار کرتے ہیں جس ملک میں تیس سال مارشل لا، چالیس سال کٹھ پتلی حکومتیں اورآٹھ سال سے ہا ہبریڈ نظام حکومت چل رہا ہو وہاں کیسے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا کلچر آسکتا ہے قبائلی نظام کی طرح کبھی ایک سیاسی دھڑا اپنے عدالتی اور ریاستی مددگاروں سے اقتدار حاصل کرتا ہے تو کبھی دوسرا گروہ اور اس سیاسی عدم استحکام اور گروہی مفادات کی جنگ میں عوام کا کیا حال ہو چکا ہے اس کی کسی با اختیار کو فکر نہیں ہے کبھی عدالتوں پر حملے اور کبھی ججوں کی توہین اور تضحیک تو کبھی عدالتی فیصلوں کو نہ ماننے کا چلن تو کبھی نو مئ کو فوجی تنصیبات پر حملے تو ان حالات میں کیسے کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے اور عوام کے جینوئن نمائندے اس ملک کو ویلفیئر سٹیٹ بنانے کی کوشش شروع کر یں گے جو تحریک پاکستان کا سب سے اہم مقصد تھا آج ہمارے ملک کے 10 کڑور افراد غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے نوے فیصد افراد دو وقت کی روٹی کے حصول کے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر حکمرانوں کی نااہلیوں کی وجہ سے ملک آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنس کر لوگوں پر ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی نے عوام کی اکثریت کا جینا دو بھر کر رکھا ہے جب تک تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو سیاست کے میدان میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملے گی الیکشن کمیشن غیر جانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا اور ریاستی ادارے پاکستان کے مفاد کو مقدم نہیں جانیں گےتب تک ایک حقیقی وفاقی نظام وجود میں نہیں آئے گا جو مختلف قوموں کے مختلف وحدتوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے پاکستانی ہجوم کو ایک قوم کی لڑی میں پرو دے ہمارے معاشرے میں کئی معاشرے مختلف جزیروں پر آباد ہیں مگر اکثر یت slums میں آباد ہر طرح کی ضروریات زندگی سے محروم ہے یہ داخلی عدم مساوات ختم کیے بغیر کیسے خالی خولی نعروں سے پاکستان میں بسنے والوں ایک قوم بنایا جا سکتا ہے لہذا ضروری ہے کہ ہر شعبہ زندگی چاہے سیاست ہو معیشت ہو تعلیم اور روزگار ہو حتی کہ کھیلوں کی دنیا ہو سب کو زندگی میں آگے بڑھنے کے میرٹ پر یکساں مواقع دستیاب ہوں تو تب ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہو نگے
Load/Hide Comments