موجودہ حکومت کے دوران کمر توڑ مہنگائی اور قاتل بجلی بِلز کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کوئی سیاسی و مذہبی جماعت باہر نہیں نکلی، سوائے جماعتِ اسلامی کے ۔ مہنگائی و بجلی گزیدہ پوری قوم نے اس وقت ریلیف کے لیے بڑی توقعات وابستہ کر لیں جب امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان، حافظ نعیم الرحمن، کے زیر قیادت راولپنڈی میں جماعتِ اسلامی نے دھرنا دیا۔
حافظ نعیم الرحمن صاحب اور ان کے دیگر قریبی اور سینئر جماعتی ساتھیوں نے جو موٹے موٹے بلند بانگ دعوے کیے تھے، یوں تھے: (1) بجلی بلز کے دباؤ کے تحت کراہتی پوری پاکستانی عوام کو واضح ریلیف دلوائے بغیر یہاں سے ٹلیں گے نہیں (2) شہباز حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے کہ وہ مہنگائی میں کمی کا اعلان کرے (3) تنخواہ دار طبقات پر شہباز حکومت نے جو ناقابلِ برداشت نئے ٹیکس عائد کیے ہیں ، اِن میں کمی کروائیں گے (4) مفت بجلی و مفت پٹرول خور سرکاری مراعات یافتہ طبقات کو مفت بجلی و پٹرول ہڑپ کرنے سے روک دیں گے (5) آئی پی پیز کے جان لیوا شکنجے سے قوم کو نجات دلائیں گے ۔
جماعتِ اسلامی نے ڈھائی ہفتے راولپنڈی میں دھرنا تو دیا مگر اپنے ڈھائی مطالبات بھی نہ منوا سکی ۔ جماعتِ اسلامی سے بلند توقعات لگانے والوں کو قوی امید تھی کہ امیرِ جماعت حکومت سے مطالبات منوائے بغیر دھرنے کی بساط نہیں سمیٹیں گے۔ دھرنے کے دوران جماعتِ اسلامی قیادت سے وفاقی حکومت کے تین اہم وزرا نے مذاکرات کے چار ادوار کیے۔ نتیجہ مگر کوئی نہ نکلا۔ ہم امید لگائے بیٹھے تھے کہ پانچواں دور شروع ہوگا تو جماعتِ اسلامی حکومت سے کچھ نہ کچھ منوا ہی لے گی ۔
پانچویں دور میں مگر جماعتِ اسلامی نے حکومت کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے دھرنا ہی ختم کر ڈالا اور اپنا ایک بھی مطالبہ نہ منوا سکی ۔ یوں لگا جیسے امیرِ جماعتِ اسلامی نے حکومت کے خلاف دھرنا دے کر اپنی ہمت سے زیادہ بوجھ اٹھا تو لیا تھا لیکن بوجھ اٹھانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ امیرِ جماعت منتخب ہونے کے بعد راولپنڈی کا یہ دھرنا حافظ نعیم الرحمن صاحب کا پہلا امتحان تھا مگر وہ اپنے پہلے امتحان ہی میں ناکام ہو گئے ہیں ۔ خواہ مخواہ انھوں نے دھرنے میں کروڑوں روپیہ بھی ضایع کیا اور اپنے مخلص کارکنان کو بِلا وجہ تھکایا بھی!
شہباز حکومت نے جماعتِ اسلامی کو وعدے کی شکل میں 45 دنوں کا لولی پوپ دیا ہے ۔ اور جماعتی قیادت کا باربار کہنا ہے کہ اگر حکومت نے45دنوں میں ہمارے مطالبات پورے نہ کیے تو دھرنا پھر دیں گے۔ ارے کون پہنچا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ؟ راقم نے جماعت اسلامی اور حکومت کے درمیان طے پانیوالے نام نہاد معاہدے کے مندرجات پڑھے ہیں ۔
اِس کا خلاصہ یہی ہے کہ حکومت نے جماعتِ اسلامی کو وعدوں پر ٹرخا دیا ہے۔ جب وزیر اعظم شہباز شریف نے 8اگست2024کو اسلام آباد میں منعقدہ علما و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ چِٹا جواب دے دیا تھا کہ ہم مہنگائی اور مہنگی بجلی سے عوام کو فوری نجات نہیں دے سکتے تو حیرت ہے اِس کے باوجود جماعتِ اسلامی نے دھرنا ختم کرنے کے لیے حکومتی وعدوں پر یقین کر لیا ؟ جماعتی قیادت نے اپنے مفادات میں دھرنا موخر کرکے عوام کو مایوس کیا ہے۔ تاثر پیدا ہوا ہے کہ جماعتِ اسلامی نے ، حسبِ معمول، پر اسرار حالات میں (جب کہ کسی دوسری جماعت کو دھرنے اور جلسے کی اجازت بھی نہیں مل رہی تھی) دھرنا دے کر اور پھر اِسے اچانک سمیٹ کر کسی کو تو خوش کیا ہوگا مگر عوامی جذبات و توقعات کا آئینہ توڑ ڈالا ہے۔
12اگست 2024 کو جماعتِ اسلامی نے لاہور کی مال روڈ پر پھر جلسہ کیا اور بلند بانگ دعوے کیے مگر یہ جلسہ راولپنڈی کے دھرنے کی خفت مٹانے کے مترادف تھا۔دھرنے کے دوران ہی بنگلہ دیش کی حکومت اور وزیراعظم پاش پاش ہو گئیں۔ توقع تھی کہ جماعتِ اسلامی پاکستان کی قیادت اِس تاریخ سازواقعہ سے ہمت پکڑے گی۔ ایسا بھی مگر نہ ہو سکا ۔ جماعتِ اسلامی پاکستان محض اِسی بات پر خوش ہو گئی ہے کہ بنگلہ دیش میں وزیراعظم حسینہ واجد سے جان چھوٹ گئی ہے۔
پاکستان میں جماعتِ اسلامی قیادت کا حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے اور حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہونے پر خوش ہونا قابلِ فہم ہے مگر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کی قیادت نے پھانسیوں کی بھیانک شکل میں جو ناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں ، پاکستان میں جماعتِ اسلامی کی قیادت تو اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ہمارے جماعتی دوست، پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب ، نے سابقہ مشرقی پاکستان میں جماعتِ اسلامی کے کردار پر جو تحقیقی کتابیں لکھ رکھی ہیں ، وہ بتاتی ہیں کہ مشرقی پاکستان میں، اسٹیبلشمنٹ سے مل کر، جماعتِ اسلامی کا کردار کس قدر ولولہ انگیز رہا ہے۔
جماعتِ اسلامی پاکستان کے ایک سابقہ رہنما، خرم مراد، نے پاکستاں ٹوٹنے کے ایام میں اپنے ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر جو انکشاف خیز کتاب (لمحات) لکھی ہے، وہ بھی بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے قابلِ فخر کردار پر روشنی ڈالتی ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ، شیخ مجیب الرحمن اور حسینہ واجد نے اِسی لیے تو بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی قیادت کو تختہ دار تک پہنچا دیا کہ وہ بنگلہ دیش میں نظریہ پاکستان کی ہنوز علم بردار کیوں بنی پھرتی ہے؟ بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل قرار دیا جا چکا ہے ۔ بنگلہ دیش میں بانی جماعتِ اسلامی، سید مودودی، کی تصنیفات کے چھاپنے اور پڑھنے پر بھی پابندی عائد ہے ۔ اگست2024 کا ماہنامہ ترجمان(جو جماعتِ اسلامی پاکستان کے فکر ونظر کا ترجمان ہے) بھی ہمیں بتاتا ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی پر کیا گزر رہی ہے !
5اگست 2024 کو جب بنگلہ دیش کی منتخب حکومت اور منتخب وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، کا تختہ الٹ دیا گیا اور حسینہ واجد بنگلہ دیشی فوج کے تعاون سے بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں تو بھی بعض اطراف سے یہ الزام لگایا گیا کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے میں بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ بھارتی میڈیا بوجوہ اِس الزام کو پھیلانے میں بڑا کردار ادا کرتے پایا گیا ہے۔ سب مگر جانتے ہیں کہ بھارت اور بھارتی میڈیا کا یہ الزام بے بنیاد ہے ۔
بنگلہ دیش کے حالات سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے میں اہم ترین اور محوری کردار بنگلہ دیشی طلبا و طالبات نے ادا کیا ہے۔ حسینہ واجد نے تو بنگلہ دیش میں طلبا کے زبردست اور غیر معمولی انقلابی کردار کے دوران جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش اور اس کے طلبا وِنگ (اسلامی چھاترو شبر) پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ایسے میں وہ حسینہ واجد کے خلاف کیسے بروئے کار آ سکتی تھی؟ بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی خاصی محتاط رہی؛ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ 5اگست کو حسینہ واجد کی آمرانہ اور ظالمانہ حکومت کے خاتمے پر امیرِ جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش، ڈاکٹر شفیق الرحمان، نے اپنی قوم کے نام جو اہم پیغام جاری کیا۔
اس کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہے اور بنگلہ دیشی طلبا وطالبات کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جنھوں نے اِس انقلاب میں اساسی کردار ادا کیا، اور جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کی قابلِ فخر افواج کی بھی شکر گزار ہے جو عوام کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی قیادت نے جو استقامت دکھائی ہے ، پاکستان کی جماعتی قیادت اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں بن سکی ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس