جب نٹور سنگھ 1980 کی دہائی میں اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر تھے تو ان کی پاکستان کے اس وقت کے صدر ضیا الحق کے ساتھ بہت دوستی ہوگئی تھی۔ دونوں دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج کے طالب علم رہ چکے تھے۔ جب 1981 میں اس کالج کی صد سالہ تقریبات منائی جارہی تھیں، تو ضیا الحق اس میں شرکت کرنے کے خواہشمند تھے اور اس بارے میں کئی بار اشارے دے چکے تھے مگر بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو انکے دہلی آنے سے متعلق تحفظات تھے۔ نٹور سنگھ نے ضیا الحق کو کالج میگزین کے صدسالہ خصوصی شمارہ کیلئے ایک مضمون لکھنے کا مشورہ دیا، جو انہوں نے بخوبی تحریر کیا۔ میگزین جب چھپا تو نٹور سنگھ نے اس کی کاپی ضیا الحق کو پیش کی۔ میگزین کے ورق پلٹتے ہوئے، ان کی نظر ایک مضمون پر پڑی، جس کو آگسٹین پال نے تحریر کیا تھا۔ انہوں نے نٹور سے کہا کہ یہ شخص ہوسٹل میں میرا روم پارٹنر ہوتا تھا۔ اس نے بھارتی ہائی کمشنر سے استدعا کی کہ اس کا ایڈریس ڈھونڈ کر اس تک میرا خط اور آٹو گراف شدہ فوٹو پہنچا دیں۔ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ بڑی مشکل سے انہوں نے پال کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ بنکاک کے بھارتی سفارت خانہ میں کام کرتے ہیں۔ ضیا الحق اپنے روم میٹ کے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔ جب چند ماہ تک بھی جواب نہیں موصول ہوا، تو انہوں نے نٹور سنگھ سے شکایت کی۔ نٹور سنگھ نے جب پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ اس خط کے ملنے کے بعد پال کی تو حالت خراب ہوگئی ہے۔ پوری بھارتی انٹیلی جنس اس کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہے۔ اس کی تو کئی بار پوچھ گچھ ہو چکی ہے۔پاکستان اور ضیا الحق کے ساتھ اس کے تعلقات کو کھنگالا جا رہا ہے۔ آخر اندرا گاندھی کی ذریعے نٹور سنگھ نے اس کی جان خفیہ ایجنسیوں سے چھڑا لی۔ نٹور کا کہنا ہے کہ بجائے ضیا الحق کے دہلی جانے کے کالج کے اساتذہ اور طلبا کا ایک گروپ، کالج کے پرنسپل مسٹر راجپال کی قیادت میں اسلام آباد آیا۔ وہ ضیا الحق کیلئے ایک نایاب تحفہ لائے تھے۔ یہ ایک تصویر تھی، جس میں ضیا الحق اپنی کلاس کے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلی بار ضیا الحق جیسے سخت ترین آدمی، جو کبھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتا تھا، کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ وہ بار بار اس فوٹو کو چوم رہے تھے۔ اس نے اس وفد کو بتایا کہ جب یہ فوٹو پرنٹ ہو کر آگئے تھے، تو ان کے پاس اس کوخریدنے کیلئے پیسے نہیں تھے۔ جب یہ وفد ہوٹل واپس آیا، تو ان کے کمروں میں بیش قیمت تحائف ضیا الحق کی طرف سے رکھے گئے تھے۔ کالج جانے کی ضیا کی خواہش 1981 میں ہی پوری ہو گئی جب وہ ناوابستہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی آئے۔ سینٹ اسٹیفن کالج کے تاریخ کے استاد پروفیسر محمد امین نے ایک بار مجھے بتایا کہ دہلی یونیورسٹی کیلئے یہ ایک یادگار دن تھا۔ نٹور سنگھ کے ساتھ ضیا الحق مکھرجی ہاسٹل کے اس کمرے میں گئے، جہاں وہ مقیم رہے تھے۔ جنوری 1986 میں جب نٹور سنگھ راجیو گاندھی کی حکومت میں نائب وزیر خارجہ تھے تو افغانستان کے صدر نجیب اللہ کا استقبال کرنے کیلئے وزیر اعظم نے ائیر پورٹ جاتے ہوئے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور پوچھا نٹور، کیا ہم پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے والے ہیں؟ راجستھان میں اس وقت فوج کے سربراہ جنرل سندرجی کی ایما پر فوجی مشقیں ہو رہی تھیںجو ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھیں۔ اس وقت کے وزیر مملکت برائے دفاع ارون سنگھ نے اسکی منظوری دی تھی۔ وزیراعظم نے ان سے اور وزیر خارجہ این ڈی تیواری سے ا مریکہ اور سوویت یونین کے سفیروں سے مل کر پاکستانی فوج کی نقل و حرکت کے بارے میں معلوم کرنے کیلئے کہا۔ سفیروں نے جلد ہی اطلاع دی کہ سرحد پار کوئی فوجی جماو نہیں ہے۔ وزیراعظم نے ایک میٹنگ بلائی اور جب وزارت خارجہ کی طرف سے تیواری اور سنگھ نے سفیروں کی معلومات رکھیں تو ارون سنگھ نے امریکی اور روسی سیٹلائٹوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا اور کہا کہ ان کو اطلاع ہے کہ پاکستان حملہ کرنے والا ہے۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم نے وزیر خارجہ اور نٹور سنگھ کو روک کر پوچھا کہ ایسے وزیر دفاع کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟نٹور سنگھ نے کہا برطرفی کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے؟ راجیو نے کہا کہ وہ ان کے سکول کا ساتھی ہے۔ نٹور سنگھ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ میں نے کچھ سختی سے کہا، جناب آپ دون سکول کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر نہیں ہیں، بلکہ ایک ملک کے وزیراعظم ہیں اور وزیر اعظم کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ چند دن بعد ہی ارون سنگھ کو وزارت خزانہ میں تبدیل کر دیا گیا، بعد میں نہ صرف اس کو وزارت سے برطرف کیا گیا، بلکہ راجیہ سبھا سے بھی مستعفی ہونے کیلئے کہا گیا۔ اس دوران صدر ضیا الحق بھی فروری 1987 میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے راجیو گاندھی کو جنگ ہونے کی صورت میں خطرناک نتائج بھگتنے کی دھمکی دے چکے تھے۔ 2004 میں کانگریس پارٹی کے زیر قیادت اتحاد کی جیت کے بعدان کو وزیر خارجہ بنایا گیا۔ مگر ایک سال بعد ہی امریکی پال وولکر کی رپورٹ نے ان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا،جس میںان کا نام ان سیاستدانوں اور کاروباریوں کے ساتھ آیا تھا، جن کو عراقی صدر صدام حسین نے تیل کے کوپن دیکر نوازا تھا۔کانگریس پارٹی نے اپنے آپ کو ان سے علحیدہ کرلیا۔ من موہن سنگھ نے پہلے ان کو وزارت خارجہ سے ہٹا کر وزیر بے قلمدان بنایا اور پھر ان کو وزارت اور پھر کانگریس پارٹی ہی چھوڑنا پڑی۔ اس واقعہ سے قبل ہی سونیاگاندھی کا دل ان سے کھٹا ہو چکا تھا۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ چونکہ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ کے خد و خال طے ہو رہے تھے تو واشنگٹن کی پہلی شرط نٹور سنگھ کو ہٹانے کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ چونکہ انہوں نے عراق پر امریکی جنگ کی مخالفت کی تھی اس لئے امریکی ان سے بدلہ لے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی سوانح حیاتOne Life Is Not Enoough کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ زندگی نقشے کے بغیر ایک سفر ہے۔ میرے باغ میں بہت سے پتے جھڑ گئے ہیں۔ اب کوئی ہار یا جیت نہیں ہے، صرف خود شناسی ہے۔ ہر صبح اب کوئی وعدہ نہیں ہے۔ وہ ایک زیرک اور کامیاب سفارت کار تھے، گاندھی خاندان کے نہایت ہی قریبی مانے جاتے تھے، مگر سیاست کسی کی دوست نہیں ہوتی ہے، یہ بس مفادات کی آبیاری کا نام ہے۔ کانگریس ان سے دورتو ہوگئی، مگر نٹور سنگھ اور ا ن کے بیٹے جگت سنگھ بھی تو خود تمام عمر کے پالے ہوئے نظریہ کو لات مار کر بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے، جہاں ا ن کے نظریہ ساز نہرو کو دن رات گالیاں دی جار ہی ہیں۔واہ رے سیاست تیرے انداز۔(ختم شد)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز