اپوزیشن کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ لیکن اس اجلاس میں کچھ طے نہیں ہو سکا۔ تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کا وفد جس میں اسد قیصر عمر ایوب شامل تھے، محمود خان اچکزئی، محمد علی درانی، جماعت اسلامی کا وفد اور دیگر جماعتیں جو اپوزیشن میں ہیں۔ ان کا ایک اجلاس اسلام آباد میں ہوا ہے۔ لیکن کچھ طے نہیں ہو سکا۔ ابھی تک اپوزیشن اتحاد کو کوئی باقاعدہ شکل بھی نہیں دی جا سکی ہے۔ اس کا کوئی ڈھانچہ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ سب اکٹھے بیٹھے اور پھر چلے گئے۔
ہم نے ماضی میں بھی اپوزیشن کے اتحاد بنتے اور ٹوٹتے دیکھے ہیں۔ اپوزیشن کے اتحاد حکومت وقت کے خلاف مشترکہ جد وجہد کے لیے بنتے ہیں۔ یہ مشترکہ جد جہد دو طرح کی ہوتی ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں پارلیمان میں بڑی تعداد کی سیٹوں کے ساتھ موجود ہوں تو وہ پارلیمان میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اور اگر اپوزیشن جماعتیں پارلیمان میں بڑی تعداد میں شامل نہ ہوں تو پارلیمان سے باہر مشترکہ جدو جہد کی جاتی ہے۔ پارلیمان سے باہر مشترکہ جدو جہد میں اکٹھے جلسے جلوس ریلیاں اور مارچ شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ابھی نہ تو پارلیمان اور نہ ہی پارلیمان سے باہر اکٹھے جدو جہد کا طے ہوا ہے۔
یہ درست ہے کہ اس وقت پارلیمان میں سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف ہے۔ لیکن اپوزیشن کے اتحاد کے لیے ہمیشہ بڑی جماعت کو ہی قربانی دینی پڑتی ہے۔ وہ سب کو اکٹھا کرنے کے لیے خود کو چھوٹا کرتی ہے اور چھوٹی جماعتوں کو بڑا کردار دیتی ہے۔ پی ڈی ایم کی مثال سب کے سامنے ہے۔ بڑی جماعت ن لیگ تھی دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی تھی لیکن قیادت مولانا کے پاس تھی۔ موجودہ اپوزیشن اتحاد ابھی اپنے آپ کو ایسی کوئی شکل نہیں دے سکا ہے۔
تحریک انصاف نے محمود خان اچکزئی کو از خود ہی اپوزیشن اتحاد کا سربراہ نامزد کر دیا ہوا ہے۔ لیکن جماعت اسلامی اور مولانا کی جماعت کو وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہیں، وہ سب کے لیے قابل قبول شخصیت نہیں ہیں بلکہ متنازعہ شخصیت ہیں۔ اپوزیشن کے اتحاد کی سربراہی کے لیے سب کے لیے قابل قبول ہونا بنیادی شرط ہوتی ہے۔ محمود خان اچکزئی ان شرائط پر پورا نہیں اترتے۔ اس لیے شاید محمود خان اچکزئی کو کسی سے مشاورت کے بغیر سربراہ بنا دینا ہی اس وقت اپوزیشن اتحاد کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ اختلاف کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ تحریک انصاف بے شک پارلیمانی طور پر بڑی جماعت ہے لیکن اب وہ اپوزیشن سیاست کی بنیادی شرط یعنی اسٹریٹ پاور کھو چکی ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ تحریک انصاف اکیلے کوئی بڑا جلسہ جلوس اور ریلی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں اجازت نہیں ملتی ہے۔ لیکن میرا موقف ہے کہ اپوزیشن کی احتجاجی سیاست حکومتوں کی اجازت کی محتاج نہیں ہوتی۔ مولانا کو سمجھ ہے کہ اگر وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر احتجاج کریں گے تو بانی تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔
مولانا کی اسٹریٹ پاور کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کا کارکن بھی حوصلہ پکڑ لے گا۔ لیکن مولانا تحریک انصاف کو اپنی اسٹریٹ پاور کرائے پر دینے کے لیے تیار نہیں۔اسی طرح جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ ہم نے بجلی کے بلوں پر اتنا بڑا دھرنا دیا ہے لیکن کوئی بھی جماعت ہمارے دھرنے میں نہیں آئی۔ سب نے فاصلہ رکھا۔ ویسے تو سب مہنگائی پرتحریک چلانا چاہتے ہیں۔ لیکن بجلی پر کوئی بھی ہمارے ساتھ نہیں آیا۔ جب ہم نے اکیلے دھرنا دیا ہے تو سب بھی اپنی اپنی تحریک اکیلے اکیلے ہی چلائیں۔ اس لیے جماعت اسلامی بھی اس وقت کسی مشترکہ جدو جہد کے موڈ میں نہیں ہے۔
ان کا بھی یہی موقف ہے کہ تحریک انصاف اپنی ضرورت کی تو بات بہت کرتی ہے لیکن دوسروں کی ضرورت کا کوئی احساس نہیں۔ اسد قیصر بھی جماعت اسلامی کے دھرنے میں نہیں آئے۔ اس لیے پارلیمان کے اندر اور پارلیمان سے باہر موجود اپوزیشن کی جماعتوں کا پہلا اجلاس ہوا ہے لیکن کچھ طے نہیں ہوسکا ہے۔ ابھی تک مشترکہ جدو جہد کی بات طے نہیں ہوئی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ محمود خان اچکزئی کواپوزیشن اتحاد کا سربراہ بنا کر بھی تحریک انصاف نے دیگر جماعتوں کی قیادت کو چھوٹا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا ان کی صدارت میں بیٹھنے کے لیے تیارنہیں۔ اب تحریک انصاف نہ اچزئی صاحب کو ہٹانے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی انھیں رکھنے کی پوزیشن میں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اپوزیشن کا اتحاد بن جائے گا۔ مجھے لگتا ہے بہت مشکل ہے۔ اعتماد کا فقدان ہے۔ اس اتحاد کی بڑی جماعت بلا شبہ تحریک انصاف ہو گی۔ لیکن تحریک انصاف پر ہی تو اعتماد نہیں ہے۔ بانی تحریک انصاف کب کیا فیصلہ کر لیں اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ کوئی ان کی گارنٹی دینے کے لیے بھی تیارنہیں کہ وہ کب اتحاد توڑ دیں۔ مولانا اور تحریک انصاف کے درمیان سیز فائر تو ہے لیکن ابھی پکی دوستی نہیں ہوئی ہے۔ اگر کل مولانا اور تحریک انصاف نے پھر ایک دوسرے کے مقابلے میں ہی الیکشن لڑنا ہے تو اب اتحاد بنانے کا کیا فائدہ۔ کیا تحریک انصاف کے پی میں مولانا کو کوئی سیاسی سپیس دینے کے لیے تیار ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ مرکز میں تو مولانا اور تحریک انصاف اکٹھے تحریک چلائیں۔ لیکن کے پی اسمبلی میں مولانا تحریک انصاف کے مقابلے میں اپوزیشن میں بیٹھے رہیں۔ پہلے تو مولانا کے پی کی حکومت میں شامل ہوں گے پھر ہی کوئی اکٹھے تحریک چلانے کی بات ہوگی۔ کے پی میں گنڈا پور تو مولانا کو کوئی سیاسی سپیس دینے کے لیے تیار نہیں اور مرکز میں سپیس مانگ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ اتحادوں کی سیاست نے انھیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب وہ کوئی اتحاد نہیں بنانا چاہتے۔ ویسے بھی اگر تحریک انصاف نے کوئی اتحاد بنانا تھا تو الیکشن سے پہلے بناتے۔ تب تو ایک سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ آج اتحاد کی کیوں بات کی جا رہی ہے۔ سب اپنی اپنی جدو جہد کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ دو تین ملاقاتوں کے بعد شاید ایسے اجلاس بھی ختم ہو جائیں گے۔ ان سب کا ایک اسٹیج پر موجود ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس