پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہو گئی۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو گرفتار کر لیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں ٹاپ سٹی سکینڈل اور ریٹائرمنٹ کے بعد خلاف قانون سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فیض حمید ریاست کے لیے کھلا سکیورٹی تھریٹ بن چکے تھے۔ انہوں نے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی کے طور پر ہی پورے ملک میں ہلچل مچا دی تھی۔ ڈی جی بنے تو ملکی معاملات پر کنٹرول پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گیا۔ جنرل باجوہ نے فیض حمید کو فری ہینڈ دے رکھا تھا۔ پی ٹی آئی والے یہ پروا کیے بغیر کہ یہ کتنا حساس معاملہ ہے کھل کر کہا کرتے تھے کہ فیض حمید ہی اگلے آرمی چیف ہونگے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر مدت پوری ہونے کے بعد انہیں کور کی کمان سونپنے کا فیصلہ ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بہت بڑا تنازع کھڑا کر دیا۔ حالانکہ کور کی کمان فیض حمید کو آرمی چیف بنانے میں معاون ثابت ہونا تھی۔ عمران خان نے فوجی ڈسپلن اور مروجہ طریق کار کو نظر انداز کر کے اپنی اہلیہ بشری بی بی کے زائچے کو مقدم جانا۔ وہ حساس ترین فیصلے بھی اپنی مرشد سے پوچھ کر کرتے تھے۔ وقتی بدمزگی کے بعد فیض حمید کو پشاور کور کی کمان سونپ دی گئی۔ آئی ایس آئی کی سربراہی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو مل گئی۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگوں کے مطابق فیض حمید کو آرمی چیف بننے کے بعد فل ٹرم اور ایک توسیع کے ذریعے کم از کم چھ سال تک عہدے پر رہنا تھا، دوسری جانب فیض حمید دل میں اس سے بھی بڑی تمنا پال بیٹھے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ روس کے صدر پوتن کی طرح پاکستان کے سیاسی و عسکری مختار کل بننا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ پوتن بھی اقتدار میں آنے سے قبل خفیہ ایجنسی کے سربراہ تھے۔ فیض حمید نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی ایک خوفناک کھیل کھیلا اور خفیہ ایجنسی میں ایک متوازی نظام تشکیل دے دیا یہی وجہ تھی کہ ان کی پشاور پوسٹنگ کے باوجود یوں محسوس ہوتا رہا کہ آئی ایس آئی کو اب بھی وہی چلا رہے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب سینئر جنرل ناراض ہوئے اور آرمی چیف جنرل باجوہ تک پیغام پہنچایا گیا کہ اگر فیض حمید ہی آپ کے جانشین ہیں تو پھر بتایا جائے کہ ہم سب کی سنیارٹی اور میرٹ کہاں ہے۔ جنرل باجوہ بیک فٹ پر آئے ویسے ان کی اپنی بھی یہی خواہش تھی کہ انہیں ہی مزید توسیع مل جائے۔ اس دوران حکومت تبدیل ہو چکی تھی۔ آرمی چیف کے لیے جنرل عاصم منیر کا نام فائنل ہوا تو اسے رکوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی جس میں فیض حمید ہی نہیں جنرل باجوہ بھی پیش پیش رہے۔ فیض حمید نے پی ٹی آئی سے احتجاج کرایا، لانگ مارچ کرائے، پالتو اینکروں سے تابڑ توڑ حملے کرائے۔ جنرل عاصم باجوہ اور جنرل آصف غفور کے تیار کردہ سوشل میڈیا نیٹ ورک کو بھی خوب استعمال کیا۔ جنرل عاصم منیر نے عہدہ سنبھالا تو ہر طرح کے حقائق سے بخوبی واقف تھے۔ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات آگے چلانے کی کوشش کی گئی۔ اس غیر ضروری صبر کا نتیجہ نو مئی کی صورت میں سامنے آیا۔ جس کے ماسٹر مائنڈ فیض حمید تھے۔ اعلی عدلیہ کے کئی جج اس سازش میں شامل تھے کیونکہ انہیں فیض نیٹ ورک کے ذریعے یقین دلایا گیا تھا کہ موجودہ سسٹم اور چیف نہیں رہیں گے۔ نئے سیٹ اپ میں اپنی جگہ برقرار رکھنی ہے تو کھل کر ساتھ دو۔ یہی بنیادی وجہ تھی کہ جج قابو میں رہے نہ میڈیا، سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا رہا۔ نو مئی کی ناکام بغاوت ایک سنہرا موقع تھا کہ تمام سازشی عناصر کو عہدوں کا لحاظ کیے بغیر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ لیکن سازش اتنی بڑی اور گہری تھی کہ اس کے بعد بھی طویل عرصہ تک انتظار کرنا پڑا، گڈ ٹو سی یو سے شروع ہونے والی کہانی اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے امریکہ جا کر بڑے فخر سے بتایا کہ آئی ایس آئی کے خلاف خط لکھنے والے چھ میں سے پانچ جج ان کی دریافت ہیں (ویسے اس دور میں ججوں سے لے کر اہم سرکاری افسروں تک سب جنرل فیض کی کلیئرنس کے بعد ہی اوکے ہوتے تھے)۔ ان جج صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ جن چھ ججوں نے خط لکھا انہوں نے پی ٹی آئی کے حق میں کتنے فیصلے دئیے بلکہ ایسے احکامات بھی جاری کیے جن کی قانون میں گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔ خود سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر آئین ری رائٹ کر کے پی ٹی آئی کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی۔ پارلیمنٹ نے قانون سازی سے غلط فیصلے کو ختم کر دیا۔ جس پر ایک جج صاحب نے امریکی سفارتکاروں کی موجودگی میں ایک تقریب کے دوران شور مچا دیا کہ عدالتی فیصلوں پر لازمی عمل کرنا ہو گا۔ میڈیا کا بڑا حصہ اور سوشل میڈیا پہلے ہی افراتفری پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے، ملکی نظام کو تہہ و بالا کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائیاں نہ ہونے کے سبب موجودہ عسکری قیادت اور سسٹم پر سے ان لوگوں کا اعتماد اٹھنے لگا جو درست طور پر سمجھتے تھے کہ پراجیکٹ عمران اور اسکی باقیات کو مکمل طور پر لپیٹے بغیر استحکام ممکن ہی نہیں۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ آگے بڑھ کر ایکشن لے۔ مزید تاخیر زہر قاتل ثابت ہو سکتی تھی۔ اس تمام گڑبڑ میں اندرونی عناصر ہی نہیں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے۔ فیض حمید کی گرفتاری برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کی طرف پہلا بڑا قدم ہے کیونکہ ان کے متوازی نیٹ ورک نے کم و بیش تمام اداروں میں بدنظمی پیدا کر رکھی ہے۔ اسی نیٹ ورک کی سرپرستی کے باعث پی ٹی آئی اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی ایسے افراد ملک سے فرار ہو گئے جنہیں کسی صورت معافی نہیں ملنا چاہیے تھی۔ آنے والے دنوں میں فیض حمید نیٹ ورک کے ججوں اور میڈیا ہاوسز کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔ مقتدر حلقوں کے پاس اب واپسی کا کوئی آپشن نہیں۔ ایک ملک میں صرف ایک اسٹیبلشمنٹ ہی ہو سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات