14اگست 2024 کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ یہ سطر پڑھنے کے بعد آپ یہ سوچیں گے کہ نیند سے بیدار ہوتے ہی قلم اٹھالیا تھا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ منگل کی شب 6بجے کے قریب ہمارے گھر کی بتی چلی گئی تھی۔ ٹی وی شو کرنے کے بعد سوا نو بجے گھر لوٹا تو میرا گھر ہی نہیں پوری گلی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بجلی غائب ہونے کے تقریبا ایک گھنٹے بعد میری بیوی نے انٹرنیٹ کی مدد سے ہمارے سیکٹر میں بجلی کے مسائل سے مختص افسر کا ٹیلی فون نمبر ڈھونڈ کر اس سے رابطہ کیا تھا۔اسے خوش گوار حیرت ہوئی کہ متعلقہ افسر نے دوسری گھنٹی کے بعد ہی فون اٹھالیا۔ اسے علم تھا کہ اسلام آباد کے F-8سیکٹر کی کس گلی میں بجلی موجود نہیں ہے۔ اسے تاہم اعتماد تھا کہ تقریبا نو بجے تک مسئلہ حل ہوجائے گا۔
اپنی بیوی اور بچی کے ہمراہ یو پی ایس کی مدد سے چلائے پنکھے کے نیچے بیٹھ کر ہم تینوں بجلی لوٹنے کا انتظار کرتے رہے۔ دس بجے کے بعد مگر یو پی ایس کی سانس بھی ڈگمگانے لگی تو میں نے اپنے ساتھی انور رضا کو فون کیا۔ و ہ صحافیوں کی مختلف یونینوں کا متحرک کارکن ہے۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کا صدر بھی منتخب ہوا تھا۔ میں بجلی اور گیس وغیرہ کے محکموں سے اپنے مسائل کی وجہ سے براہ راست رابطہ کروں تو خفا ہوجاتا ہے۔ نہایت خلوص سے یقین دلاتا ہے کہ اس کا سینئر ہوتے ہوئے میں اس کے بڑے بھائی جیسا ہوں۔ چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لیے سرکاری دفتروں سے میرا رابطہ کرنا اسے برا لگتا ہے۔ یوپی ایس کے آخری دموں نے اس سے رابطے کو لیکن مجبور کردیا۔
چند ہی لمحوں بعد اس نے متعلقہ حکام سے رابطے کے بعد اطلاع دی کہ ہماری گلی کے کسی ایک گھر میں کوئی ایسی شے زیر استعمال ہے جو سارے محلے کو بجلی دینے والے ٹرانسفارمر کو ٹرپ کردیتی ہے۔ اس کی وجہ سے کسی روز ٹرانسفارمر جل بھی سکتا ہے۔ بہرحال منگل کی رات ٹرانسفارمر محض ٹرپ ہوا تھا۔ اس کے ذریعے گلی کو بجلی فراہم کرنے والی تار مگر جل چکی تھی۔ اسے فکس کرنے میں مزید 15سے 20منٹ درکار تھے۔
انور کا فون شروع ہوتے ہی ہمارا یو پی ایس بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی گفتگو کا مل اندھیرے میں سنی۔ شکریہ ادا کرنے کے بعد تار فکس ہونے کا انتظار شروع ہوگیا۔ ہماری گلی اسلام آباد کے پوش تصور ہوتے F-8/2سیکٹر میں واقع ہے۔ ہماری گلی سے ملحق ایک گلی میں صدر آصف علی زرداری کا بلاول ہاؤس بھی ہے۔ اس گلی میں لیکن گزشتہ تین ہفتوں سے ہر دوسرے تیسرے روز بجلی گھنٹوں کو چلی جاتی ہے۔ دوبار اسے درست کرنے کو زمین کھودکرنئی زیر زمین کیبل بھی لگائی گئی۔ مسئلہ مگر قابو میں نہیں آرہا۔ منگل کی رات بجلی تو ساڑھے دس بجے کے بعد آگئی۔ اس کی آنکھ مچولی مگر جاری رہی۔ گھر کے ایک حصے میں نصب فیز رواں ہوتا تو دوسرا یا تیسرا حصہ کامل اندھیرے میں ڈوب جاتا۔ یوں رات کے ساڑھے چار بج گئے۔ ہم تینوں ہنگامی حالات میں گھرے ایک دوسرے کو حوصلہ دیتی گفتگومیں مصروف رہے۔ بیوی اور بچی تو بالآخر تھک کر سوگئیں۔ میں اپنے بستر پر فقط کروٹیں ہی بدلتا رہا۔ جسم تھکن سے چور اور دل ودماغ مفلوج ہوچکے ہیں۔ چند گھنٹوں کی گہری نیند تریاق کی صورت درکار ہے۔ وہ مگر قریب پھڑکنے کو آمادہ نہیں۔ اسی کشمکش میں فیصلہ کیا قلم اٹھاکر روز کی روٹی روز کمالی جائے۔
کالم کا طویل ابتدائیہ اگرآپ نے پڑھ لیا ہے تو یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ اپنی ذات پر گزرے واقعہ کی وجہ سے میں یوم آزادی کے بارے میں جلے بھنے سوالات اٹھاکر سیاپا فروشی کی دوکان لگاؤں گا۔ میں لیکن اس دھرتی کا فرزند ہونے پر ہرگز شرمندہ محسوس نہیں کرتا۔ بطور صحافی دنیا کے بے شمار ملک دیکھے ہیں۔ ہمارے جیسے کئی ممالک میں کئی بار پیشہ وارانہ فرائض کی وجہ سے کچھ وقت گزارنے کے بعد بخوبی جان چکا ہوں کہ دیگر کئی پسماندہ ممالک اور خاص طورپر اسلامی کہلاتے غریب ملکوں کے مقابلے میں پاکستان اب بھی کئی اعتبار سے ایک بہتر ملک ہے۔
اپنی جبلت کے اعتبار سے ہم بڑبولے ہیں۔ اشرافیہ کی من مانیوں کو محض ایک حد تک ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد تقریبا ہر حکومت نے میڈیا کو گونگا بنانے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ لوگوں کو باخبر رکھنے کے جنون میں ہمارے بزرگ صحافیوں نے مگر دل کی بات زبان پر لانے اور اسے اخبار میں چھپوانے کے ہزاروں ڈھنگ دریافت کرلیے تھے۔ رواں صدی کے آغاز میں الیکٹرانک میڈیا آیا۔ و ہ بھی اپنی بہار دکھا کر اب منافع خوری کے ہاتھوں دم توڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اسے گونگا بنانے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ وہ بھی مگر ناکام ہوں گی۔
یہ بات حقیقت ہے کہ 2014 سے جمہوریت کے نام پر آدھا تیتر آدھا بٹیر والا جو ہائبرڈ نظام ہم پر مسلط کرنے کی کوشش ہورہی ہے عوام کی بے پناہ اکثریت اس سے اب اکتا چکی ہے۔ وطن عزیز کی 60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے وہ امید کھوچکے ہیں۔ ملک چھوڑنے کے بے قراری سے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی مگر25 کروڑ کو چھونے ہی والی ہے۔ ہم سب اپنی دھرتی چھوڑ کر دنیا کے دیگر ممالک میں آباد ہونہیں سکتے۔ خاص طورپر ان دنوں جب امریکا اور یورپ کے تقریبا ہر ملک میں غیر ملکی تارکین وطن اور خاص طورپر مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ نفرت اپنے عروج پر ہے۔ ہمارا جلنا کڑھنا مزید کتنے دنوں تک جاری رہ سکتا ہے؟ ماتم کنائی اور اپنی ملامت کی بھی لیکن ایک حد ہوتی ہے۔ اس کے بعد فقط دیوار سے ٹکر مارنا ہی باقی رہ جاتا ہے۔
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ماتم کنائی سے تھک کر جب آنکھ لگ گئی تو بیدار ہونے کے بعد ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ عوام کی اجتماعی بصیرت سے استفادہ کیے بغیر ہماری عقل کل اشرافیہ نے اپنی قوت کے بل بوتے پر ہمیں عالمی سطح کاپہلوان بنانے کے نام پر جتنے بھی تجربات کیے وہ پاکستان کو کھائی کی جانب ہی دھکیلتے رہے ہیں۔ پاکستان کا قیام کسی دلاور کے ایڈونچر کے سبب نہیں ہوا تھا۔ یہ اس خطے میں کم از کم ایک ہزار سال سے آباد مسلمانوں کی اجتماعی بصیرت کی رہنمائی میں کامل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا ملک ہے۔ اس کے قیام کے بعد مگر دیدہ وروں نے اجتماعی بصیرت کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے اپنی دلاوری کے کمالات دکھانا شروع کردئے۔ وقت آگیا ہے کہ دلاور ودیدہ ور اپنی محدودات تسلیم کریں۔ عوامی بصیرت کے روبرو سرنگوں کرتے ہوئے اسے ہی وطن کی بہتری اور خوش حالی کے طریقے سوچنے دیں۔ ایسا نہ ہوا تو خلق خدا اور خاص طورپر یہاں کے نوجوان بالآخرعقل کل ہوئے حکمرانوں کو ویسے ہی یہاں سے بھاگنے کو مجبور کردیں گے جیسے حال ہی میں بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے کیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت