چیف آف پروٹوکول دم دبا کر بھاگ گیا اور نہرو کو بتایا کہ اس معاملہ کو گول کردیں اور شاہ کے سامنے اب اشاروں میں بھی اس کا کوئی ذکر نہ کریں۔ اسی طرح مارچ 1955 کو کمبوڈیا کے بادشاہ نورودوم سیہانوک بھارت کے سرکاری دورے پر آئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ پانچ بدھ راہبوں کو بھی لے کر آگئے ۔ بدھ مت کا جنم ہی بھارت میں ہوا ہے۔ بھارت نے میزبانی کیلئے پانچ بدھ بھکشوؤں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ دونوں طرف کے بھکشووں نے آپس میں بدھ مت کی مقدس پالی زبان میں بات کی۔ سفارت کار خوش تھے کہ دونوں طرف خیر سگالی اور رابطے کا بہت اچھا پیغام جا رہا ہے۔ بھارت کے بدھ راہبوں کے لیڈر نے ہوٹل پہنچ کر اپنے کمبوڈیا کے ہم منصب سے پوچھا کہ کھانے میں وہ کیا پسند کریں گے؟ تو کمبوڈیا کے راہبوںنے یک زبان ہو کر کہا کہ ان کو بیف یعنی گائے کا گوشت چاہئے۔ اتنا سننا تھا کہ بھارتی بھکشو بے ہو ش ہوتے ہوتے رہ گئے۔ مارچ 1983کو پھر نومبر1983میں بھارت میں بالترتیب ناوابستہ ممالک اور پھر دولت مشترکہ کے ممالک کے سربراہی اجلاس منعقد ہوئے۔ ان دونوں اجلاسوں کے منتظم کے بطور اندراگاندھی نے نٹور سنگھ کا انتخاب کیا۔ جہاں ایک سربراہ مملکت کے دورے سے حکومت اور اس شہر کی سٹی گم ہو جاتی ہے، اب اگر ایک سو کے قریب سربراہان مملکت شہر میں موجود ہوں تو کیا سماں ہوگا۔ ان کے آنے سے قبل ان کی سکیورٹی ٹیم اور پھر ان کے وفود کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے۔ شمالی کوریا کی ایڈوانس ٹیم نے نٹور سنگھ کو کہا کہ ان کو پورا ہوٹل درکار ہے اور اس میں اور کوئی نہیں ہونا چاہئے ۔ جب ا ن کا لیڈر سڑک پر ہو، تو ایک گھنٹہ قبل اس پر کوئی ٹریفک نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح ان کے لیڈر کے آس پاس آٹھ سیٹوں تک کوئی اور نہ بیٹھے۔ وہ اس وفد کے سربراہ کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ تقریبا سو کے قریب سربراہان آرہے ہیں اور کیسے ایک پورا ہوٹل اور ایک پوری سڑک ان کیلئے وقف کرسکتے ہیں۔ نٹور سنگھ کہتے ہیں کہ پوری حکومت کا چین لٹ چکا تھا جب تک یہ خبر نہیں آئی کہ شمالی کوریا کے عظیم لیڈر نے سمٹ میں آنے کا فیصلہ رد کردیا ہے اور وہ اپنے وزیر خارجہ کو اجلاس میں شرکت کیلئے بھیج رہے ہیں۔ دولت مشترکہ کا سربراہی اجلاس 1985میںویسٹ انڈیز کے پاس بہاماس کے دارالحکومت ناسا میں منعقد ہونے والا تھا۔ان کو وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بتایا کہ وہاں جاکر معلوم کریں کہ اس اجلاس کو منعقد کرنے کے حوالے سے کیسے ان کی مدد کی جاسکتی ہے؟ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے نیو یارک چلے گئے اور وہاں اقوام متحدہ میں اپنے مستقل نمائندے سے کہا کہ وہ بہاماس کے سفیر سے رابطہ کرکے وزیر اعظم سر لنڈن آسکر پنڈلنگ سے ملاقات کا بندوبست کراودیں۔ مگر کئی روز تک کوئی پیغام نہیں آیا۔ انہوں نے واشنگٹن میں بھی بہاماس کے سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ایک روز ان کو اپنے سفیر نے بتایا کہ معروف سادھو چندرا سوامی ان سے بات کرنا چاہتا ہے۔ جب انہوں نے فون اٹھایا تو سوامی ہنس رہا تھا۔ کنور صاحب، پنڈلنگ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ نٹور سنگھ ابھی کچھ غصے میں بولنے والے تھے کہ سوامی نے کہا کہ کل بہاماس کا وزیر اعظم آپ سے ملاقات کر رہا ہے۔ میں نے انتظام کر دیا ہے۔ جہاں بھارت کی پوری سفارت کاری ناکام ہو گئی تھی، وہاں سوامی کامیاب ہو گیا تھا۔ بھارتی سیاست میں چندر سوامی ایک عجیب و غریب کریکٹرکا نام ہے۔ وہ بعد میں دھوکہ دہی اور کئی الزامات کے سلسلے میں جیل میں بھی رہا۔ مگر کئی سیاستدان اس کے آشرم میں پانی بھرتے نظر آتے تھے اور ایک زمانے میں اس کو بادشاہ گر کے طور بھی دیکھا جاتا تھا۔ نٹور سنگھ کا اس سوامی سے 1975میں بھی واسطہ پڑا ، جب وہ برطانیہ میں نائب سفیر تھے۔ وزیر خارجہ یشونت راؤ چوہان نے ان کو ہدایت دی تھی کہ سوامی کولندن میں لارڈ مونٹ بیٹن یا مارگریٹ تھیچر سے ملاقات کروانے کا بندوبست کروائیں۔ مرتا کیا نہ کرتا، پہلے مونٹ بیٹن کے دروازے پر دستک دی، تو معلوم ہو اکہ وہ چھٹیاں منانے کہیں جا رہے ہیں۔ تھیچر اپوزیشن کی ایک توانا آواز بن کر ابھر رہی تھی، مگر وزارت عظمی سے ابھی بہت دور تھی۔ نٹور سنگھ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح ایک انگریز خاتون ممبر پارلیمنٹ کو ایک سادھو سے ملنے کیلئے راضی کیا جائے۔ خیر وہ برطانوی پارلیمنٹ میں تھیچر کے دفتر پہنچے اور اس نے دس منٹ ملنے کیلئے حامی بھری۔ راستے بھر نٹور سنگھ چندرا سوامی کو ہدایت دیتے رہے کہ وہاں کوئی کھڑاک نہ کرنا۔ خیر دفتر میں سوامی نے کاغذ کی چند پرچیوں پر مارگریٹ تھیچر کو کچھ سوال لکھنے کیلئے اور پھر ان کی گولی بناکر میز پر پھینکنے کیلئے کہا۔پھر اس نے ایک ایک گولی میں درج سوال ان کو کھولے بغیر تھیچر کے گوش گزار کئے۔ میٹنگ ختم ہوگئی، مگر تھیچر نے کہا کہ وہ پھر سوامی سے ملنا چاہتی ہیں اور اس بار بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے گھر پر۔ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر پر ڈنر کا اہتمام کیا اور سوامی صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر تھیچر کو بتانے لگا کہ وہ ایک دہائی سے زائد برطانیہ کی وزیر اعظم ہونگی۔ تھیچر نے پوچھا ،مگر کب ا س عہدہ تک پہنچوں گی؟ سوامی نے جواب دیا کہ اگلے چار یا پانچ سالوں میں۔ تھیچر واقعی پھر 1979میں برطانیہ کی وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔کئی برسوں بعد جب ایک دن کسی تقریب میں نٹور سنگھ نے تھیچر کو، جو اب وزیر اعظم تھیں، یاد دلایا، تو اس نے ان کو ایک کونے میں لے جاکر ہدایت دی کہ اس واقعہ کا ذکر کہیں نہیں ہونا چاہئے۔ نٹور سنگھ، پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنی اہلیہ ہیم کے ساتھ 20 مئی 1980 کو اسلام آباد پہنچے تو جہاز کی کھڑکی سے انہوں نے دیکھا کہ میڈیا کا ایک ہجوم ٹارمیک پر تھا۔ اس کے ساتھ ان کی نظر ایک سرخ قالین پر بھی پڑی۔ انہوں نے سوچا کہ ایسا بھی کیا کہ بھارت کے نئے ہائی کمشنر کا اس طرح استقبال ہو رہا ہے۔ وہ اسی زعم میں جب باہر نکلے تو کوئی کیمرہ کلک نہیں ہوا۔ جب ایک دوسرا جہاز ٹارمیک پر آیا تو پورا میڈیا اس کی طرف لپک پڑا، معلوم ہوا کہ مالدیپ کے وزیر خارجہ سرکاری دورہ پر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد روانگی سے قبل نٹور سنگھ نے بھارت میں پاکستانی سفیر عبدالستار سے ملاقات کی۔ انہوں نے ستار سے پوچھا کہ بطور سفار تکار میں جانتا ہوں کہ سرحد پار اپنے دوستوں کو کیا کہنا ہے۔ مگر مجھے بتائیں کہ مجھے کیا نہیں کہنا چاہئے؟’ ان کا صاف جواب تھا کہ دیگر بھارتی سفارت کاروں اور سیاستدانوں کی طرح یہ کبھی مت کہوں کہ ہم ایک جیسے لوگ ہیں۔ اگر ہم ہوتے توہم 1947میں الگ ہی کیوں ہوتے۔ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ مشورہ گرہ میں باندھ لیا اور اس کو وہ آج تک نہیں بھولے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز