لفظ ’’فیض‘‘سے میری خاص نسبت ہے۔ والد گرامی مرحوم کا نام فیض سرور سلطان تھا گھر والے اور انکے دوست انہیں چودھری سرور کہتے اور بلاتے تھے البتہ وہ جس سکول میں پڑھاتے تھے وہاں ان کے شاگرد اور ساتھی اساتذہ انہیں فیض صاحب کہہ کر بلاتے تھے اور اب تک اسی نام سے انہیں یاد کرتے ہیں ،میں نے اپنے کالم کا عنوان بھی انہی کے نامِ نامی سے لیا ہے کہ میری زندگی کی انسپائریشن ان کے خیالات اور افکار ہی ہیں۔ فرسٹ ایئر میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں اردو کے استاد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تھے وہ جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر تھے، انہوں نے فیض احمد فیض کو پڑھایا تو بائیں بازو، کمیونزم اور روسی انقلاب کا تعارف بھی کروا دیا۔ فیض کی شاعری نے متاثر کیا تو فیض نام اور بھی عزیز ہو گیا۔ جنرل فیض کے کورٹ مارشل کا فیصلہ ہوا تو میری ذاتی زندگی میں لفظ فیض اور نام فیض کی یاد تازہ ہو گئی۔ جنرل فیض سے میری زندگی میں ایک ہی ملاقات ہوئی جس کا تفصیلی ذکر ابھی آئے گا۔ میرے قریبی عزیز دوست جو عمران خان کی کابینہ میں اہم وفاقی وزیر تھے، وہ جنرل فیض کی اکثر تعریفیں کیا کرتے تھے بقول ان کے وہ DOERتھے، سیاست کو جانتے تھے اور وہ فوجی سیٹ اپ میں واحد تھے جو سویلین مائنڈ سیٹ سے بخوبی واقف تھے، وہ جانتے تھےکہ کوئی کام کیسے نکلوانا ہے زور زبردستی، پیار محبت، تحریص یا دباؤ، وہ ہر ایک حربے کو استعمال کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیتے تھے۔ جب جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی جوڑی پورے جوبن پر تھی میڈیا پر جنرل عاصم باجوہ اور ان کے مابعد جنرل کا کڑا جال بچھا ہوا تھا تو اس کمزور نے ’’12سالہ پائیدار ترقی کا منصوبہ‘‘ نامی کالم لکھا جو تضادستان میں تو شائع نہ ہو سکا مگر بی بی سی نے اسے شائع کر دیا اس کالم میں جنرل باجوہ کے چھ سالہ دور کے بعد جنرل فیض کے چھ سالہ دور کو ملا کر کل 12سالہ دور کی منصوبہ بندی کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ گویا جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے عزائم واضح تھے منصوبہ بندی مکمل تھی مگر قدرت کے آگے کس کی چلتی ہے، عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے شروع ہونے والے واقعات نے اس ساری منصوبہ بندی کو ناک آؤٹ کر دیا اور آج معاملہ کورٹ مارشل تک جا پہنچا ہے کہاں تو بادشاہی کی تیاریاں تھیں اور کہاں بات کال کوٹھڑی تک جا پہنچی۔
جنرل فیض حمید سے ملنے کا تجسس بہت تھا مگر یہ ملاقات تب ممکن ہوئی جب میڈیا کے مشکل ترین حالات میں اسلام آباد آئی ایس آئی کے دفتر میں جنگ اور جیو کے ادارتی ذمہ داران کی طلبی ہوئی، یہ کمزور ناچیز بھی اس ٹیم میں شامل تھا، اس ٹیم میں جنگ اور جیو کے سینئر ترین لوگ شامل تھے۔ مارگلہ ہلز کے دامن میں پارلیمان ہاؤس والی سڑک پر واقع اس دفتر کے کانفرنس روم میں ہم سب چھوٹے بڑے لائن حاضر تھے اور منتظر تھے کہ قدرت سے کیا ظہور میں آتا ہے ابھی ہم کرسیوں پر سیدھے ہو رہے تھے کہ جنرل فیض حمید تشریف لے آئے ہر ایک سے فرداً فرداً ہاتھ ملایا مسکرا مسکرا کر سب سے ملے اور ہیڈ چیئر پر براجمان ہو گئے شاید یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اس میٹنگ کے باس وہ ہیں حالانکہ ماضی میں اس طرح کی ملاقاتوں کا آداب اور قرینہ یہ ہوا کرتا تھا کہ فریق آمنے سامنے بیٹھ کر برابری اور احترام کی بنیاد پر بات کرتے تھے حالانکہ بالادستی تو طاقتور کو ہی حاصل ہوتی تھی لیکن وضع داری میں ظاہر یہی کیا جاتا تھا کہ دونوں فریق برابر ہیں لیکن جنرل پاشوں، جنرل ظہیروں اور فیضوں نے اس وضعداری کو خیر باد کہہ دیا تھا، جنرل عاصم باجوہ اور انکے فوراً بعد آنے والے جنرل کے دور میں ماضی کا قرینہ وضع داری اور آداب بھلا کر 30،40سالہ تجربے والے ایڈیٹرز کو لیفٹین، کپتان اور کرنل فون کر کے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیا کرتے تھے، دھمکیاں پہلے بھی آتی تھیں مگر ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر رینک اور رتبے کا خیال رکھتے ہوئے مگر اوپر دیئے گئے ناموں کے دور میں عسکری ادارے کے کار پردازان نے میڈیا کی توہین اور اس کے ذمہ داروں کی ذلت کا پورا اہتمام کئے رکھا۔ آج اگر میڈیا کا گلا گھونٹا جا چکا ہے تو اس کا آغاز جنرل عاصم باجوہ نے منظم سائنسی طریقے سے کیا ان کے فوراً بعد آنے والے جنرل نے اسے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا، میڈیا سے وہ وہ مطالبات کئے جاتے تھے جو پورے 70سال کی تاریخ میں کبھی سنے نہیں گئے تھے۔ خیر ذکر تو جنرل فیض سے ملاقات کا ہو رہا تھا گلے شکوے توبر سبیل ِتذکرہ آ گئے۔ ملاقات کا آغاز لمبے چوڑے سمارٹ بریگیڈیئر صاحب نے کیا اور کہا کہ آج کے جنگ اخبار نے حکومت کے خلاف شہ سرخی جمائی ہے حالانکہ کسی اور اخبار نے ایسا نہیں کیا۔ ہمارے ادارے کے سربراہ نے تحمل سے الزام سنا اور سامنے پڑے چار اخبارات میں لگی وہی شہ سرخی دکھا دی، دوسری جانب خاموشی چھا گئی الزام ہی غلط تھا، جنرل فیض حمید کایاں تو تھے سمجھ گئے کہ ٹیبل ٹاک اور دلائل کی بنیاد پر جیتنا ممکن نہیں اور یوں ہمارے باس کا بازو پکڑ کر اندر لےگئے، یہ تو علم نہیں کہ اندر کیا ہوا لیکن بظاہر خوشگوار ملاقات کے بعد بھی برف مکمل طور پر نہ پگھل سکی اور پھر جنرل فیض حمید کے دور ’’سعید‘‘ ہی میں ہمارے ادارے کے سربراہ کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر جیل بھیج دیا گیا جنگ اور جیو کے خلاف پس پردہ اور کھلی کارروائیاں جاری رہیں۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید ہوں یا ان جیسے اور ہوں وہ آئین پر لئے گئے اپنے حلف کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہی سے سیاسی اور ذاتی مخالفوں کو رگیدنے کا عمل شروع ہو گیا اور یہ ابھی تک رکا نہیں، سب سے پہلے کمیونسٹ غدار قرار پائے اور پھر 50سال تک ان کا پیچھا کیا جاتا رہا۔ جیلیں، قیدیں اور سزائیں ان کا مقدر ٹھہرائیں، تھوڑا سا عرصہ جماعت اسلامی بھی زیر عتاب رہی پھر بنگالی اور عوامی لیگ ہدف پر آ گئے۔ مشرقی بازوکی علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی سے چن چن کر بدلے لئے گئے۔ نون بھی سالہا سال نشانے پر رہی، آج کل تحریک انصاف اس مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ہر دور کا جنرل فیض، اپنے آئینی اور محکمانہ دائرہ کار سے باہر نکل کر اپنے سیاسی اور ذاتی حریفوں کو گراتا رہا ہے۔ جنرل فیض حمید پر جو چارج شیٹ لگی ہے اس میں انکی ڈیوٹی کے دوران ہونے والی سرکاری سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی الزام نہیں لیکن یہ تو سب کو علم ہے کہ وہ قانون، آئین یا روایات کا احترام کم ہی کرتے تھے چھکے مار کر اپنا کام نکلواتے تھے انہوں نے اتنے چھکے مارے کہ میڈیا، سیاست دانوں اور عوام سب کے چھکے چھڑا دیئے اب خود چھکے کی زد میں ہیں، ہر عروجےرا زوالے!!
اصل بات یہ ہے کہ اس کورٹ مارشل سے سب کو مطلع ہو جانا چاہئے کہ ہر فرعون اور ہر ہلاکو نے کبھی نہ کبھی احتساب سے گزرنا ہے کئیوں کا یہیں احتساب ہو جائے گا اور کئی اگلے جہاں جا کر جواب دہ ہونگے ابن زیادوں اور حجاجوں نے اپنے وقت میں جبر سے سب کو دبا تو لیا لیکن وہ نہ ان مظالم کا کبھی مداوا کر سکیں گے اور نہ ہی تاریخ انکے ایسے کسی اقدام کو قبول کرے گی۔فاعتبرو یا اولی الابصار!!
بشکریہ روزنامہ جنگ