دریائے یانگسی چین کے جنوب مغرب میں تبت کی سطح مرتفع سے نکل کر 6300 کلومیٹر دور چین کے مشرقی سمندر میں گرتا ہے۔ دنیا کے اس تیسرے طویل ترین دریا سے سیراب ہونے والے زرخیز خطے چین کی جی ڈی پی کا 20 فیصد حصہ ہیں۔چینی رہنما سن یات سن نے اس دریا پر بند باندھ کر چین کی معیشت بدلنے کا خواب دیکھا تھا۔ 1994ء میں تین گھاٹیوں سے منسوب ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی۔ 31ارب ڈالر کی لاگت سے2015 ءمیںمکمل ہونے والا دنیا میں پن بجلی پیدا کرنے کا یہ سب سے بڑا منصوبہ سالانہ 22.5 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل میں 14لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا۔ سالانہ 31.7 ملین ٹن کوئلہ جلانے سے نجات ملنے پر ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ کمی واقع ہوئی۔ Three Gorges Damنے2020 میں 112 ارب کلوواٹ بجلی پیدا کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ایک طرف یہ منصوبہ چین کے سیاسی بندوبست ، معاشی منصوبہ بندی اور تکنیکی صلاحیت کا نشان ہے۔ دوسری طرف قدرتی ماحولیاتی توازن میں اتنی بڑی تبدیلی کے باعث غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں اس ڈیم کی مضبوطی پر سوالیہ نشان ہے۔ زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع اس ڈیم میں ہزاروں قصبے اور لاکھوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں ۔ ڈیم میں بڑھتی ہوئی آبی آلودگی اور خطے کی آبی اور جنگلی حیات پر منفی اثرات اضافی مسائل ہیں۔ اس ڈیم سے لینڈ سلائیڈنگ اور زمینی کٹاؤ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ جولائی 2024ء میں بارشوں کے باعث ڈیم میں پانی کی سطح 161 میٹر تک بلند ہو گئی تھی ۔ اندیشہ تھا کہ ڈیم اتنے زیادہ پانی کی تاب نہ لاتے ہوئے منہدم ہو جائے گا۔ یہ حقائق اس لئے بیان کیے کہ معاشی ترقی ،تکنیکی صلاحیت اور انسانی تحفظ میں توازن ایک پیچیدہ سیاسی بندوبست کا تقاضا کرتا ہے۔ ہماری نسل بچپن سے Three Gorges Dam کا تذکرہ سنتی آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہمیں بھی تین گھاٹیوں کے فکری اندھیرے سے واسطہ پڑا۔20 جولائی کو کراچی کے مشہور مذہبی عالم مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ’عوام کھڑے ہو جائیں تو حکومت گھٹنے ٹیک دے گی۔ معاشرے کے مختلف طبقات جمع ہوں اور غلامی سے نکلنے کا راستہ نکالیں۔ عوام منتظر ہیں کہ کوئی بہتر نظام اور سیاسی قیادت ان کے دکھوں کا مداوا کرے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کو آئیڈیل بنا لیا گیا۔ ہم آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔ ملک کا سیاسی نظام معاشی طور پر مغرب کا غلام ہوچکا۔ ان حالات میں سیاسی نظام کے ذریعے اسلامی نظام لانامجھے مشکل لگتا ہے، دنیا میں انقلاب صرف حکومت کے ذریعے نہیں آتے، عوام کے ذریعے آتے ہیں۔ تاجر اور عوام فیصلہ کر لیں تو امپورٹڈ مصنوعات بند ہو جائیں گی۔ ملت کے تمام لوگ زکوٰۃ ادا کریں گے تو غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔دنیا بھر میں اسلامک بینکنگ فروغ پا رہی ہے‘۔سوال یہ ہے کہ تقی عثمانی صاحب کس حیثیت سے عوام کو ایک دستوری حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔ علم سیاست میں مغرب اور مشرق کی اصطلاحات بے معنی ہو چکیں۔ مولانا دراصل جدیدیت کے مخالف ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ان کی قدامت پسندی کی بقا بھی مغربی ٹیکنالوجی کی محتاج ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی ایک بے معنی نعرہ ہے۔ آپ نے جو قرض لیے ہیں ، وہ طے شدہ سود کے ساتھ واپس کرنا ہوں گے۔ ماہر معیشت کہلانے والے مفتی صاحب یہ نہیں جانتے کہ درآمدات روکنے سے ملک کی بچی کھچی پیداواری صلاحیت بھی ختم ہو جائے گی۔ زکوٰۃ سے غربت کا خاتمہ جدید معیشت سے لاعلمی ہے۔ اگر جی ڈی پی کے 9 فیصد ٹیکس سے معیشت نہیں چل رہی تو اڑھائی فیصد سے غربت کیسے دور ہو گی۔ یہ ضمانت کون دے گا کہ ٹیکس چوری کرنے والے دیانت داری سے زکوٰۃ ادا کریں گے۔ زکوٰۃ فرد کو دی جاتی ہے ، حکومت کے اخراجات محصولات کے بغیر کیسے پورے ہوں گے۔ مفتی صاحب سے دنیا بھر میں اسلامی بینکنگ کے فروغ کا ثبوت بھی مانگنا چاہئے۔ 8 اگست کو نیشنل علما کنونشن سے خطاب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ’ جو لوگ شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے۔ جو یہ کہتے تھے کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، وہ آج کہاں ہیں؟ کشمیر تقسیم پاک و ہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔اگر ریاست کی اہمیت جاننی ہے تو عراق، شام اور لیبیا سے پوچھو۔ شمال مغربی سرحد پر دہشت گردی کے تناظر میں یہ بیان آئینی امور سے لاعلمی کا آئینہ دار ہے۔ ہماری شہریت دستور کی شق 5 اور 4 کے تابع ہے۔ دستور کی شق 20 نے تمام شہریوں کو عقیدے کی آزادی دے رکھی ہے۔ مذہبی عقیدہ اور شہریت دو الگ معاملات ہیں۔ جنرل صاحب نے بھارتی شاعر سرفراز بزمی کا ایک پیش پا افتادہ قطعہ بھی حاضرین کی نذر کیا۔ Exceptionalism پر مبنی اقبال کے جس شعر کا حوالہ دیا، وہ جدید سیاسی فکر میں زائد المیعاد ہو چکا۔ جنرل صاحب عراق ، شام اور لیبیا میں ریاست کا حوالہ دے کر فوج مراد لینا چاہتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ یہ ممالک جمہوری سیاست کی روایت نہ ہونے کے باعث برباد ہوئے ۔ دنیا کی کوئی فوج سیاسی شعور سے عاری قوم کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ معاشرے میں اعتدال پسندی کی ترویج ضروری ہے لیکن اس کا مطالبہ ان عناصر سے کرنا بے معنی ہے جن کے معاشی مفادات ہی تفرقے اور انتہا پسندی سے وابستہ ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید بالآخر گرفتار کرلئے گئے۔ یہ معاملہ نومبر 2022ء اور مئی 2023 ء سے لٹک رہا تھا۔ اس گرفتاری سے پروجیکٹ عمران کی رسمی تدفین شروع ہو گئی ہے۔ تاہم فیض حمید رئیل اسٹیٹ کے ایک معاملے میں ماخوذ بتائے گئے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے قضیے میں فریق ایک شخص سرِعام اعلان کرتا ہے کہ ’جمہوریت کفر ہے‘۔ یہ شخص ایک ٹی وی چینل بھی چلاتا ہے۔ دستور میں جمہوریت کو پاکستان کا سیاسی نظام قرار دیاگیا ہے۔ کیا جمہوریت کو کفر قرار دینے والا آئین کی شق 4 کی خلاف ورزی نہیں کر رہا۔ فیض حمید کی گرفتاری کے تاریخی اقدام کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ہر اس شخص کی گردن ناپنا ہو گی جو جمہوریت کے خلاف زبان طعن دراز کر تا ہے کیونکہ ایسے عناصر ہی پاکستان پر حملہ آور انتشار پسندوں کے حقیقی دوست ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ