اہم سوال : تحریر مزمل سہروردی


سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے چند روز قبل عدلیہ کب سرخروہو گی کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کیا۔ وہ پاکستان کے متوقع چیف جسٹس پاکستان بھی ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے چیف جسٹس پاکستان بننا ہے۔ اس پس منظر کی بنا پر ان کا خطاب قانونی اور سیاسی حلقوں میں بڑی سنجیدگی سے سنا گیا لہذا خطاب میں کی گئی باتوں پر تبصرے اور مباحث کا ہونا فطری بات ہے۔ان کی باتوں کو آنے والے چیف جسٹس کی باتوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔

میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے اور میں اب بھی اپنے اس موقف پر قائم ہوں کہ ججز کو کیسز کی سماعت کے دوران سیاسی ریمارکس دینے سے حتی المقدور بچنا چاہیے۔ بلکہ میری تو رائے ہے کہ ان کے ریمارکس کی نشر و اشاعت پر تو مکمل پابندی ہونی چاہیے۔

ریمارکس کی اشاعت نے ججز اور عدلیہ دونوں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹرز عدالتی ریمارکس کو خبر کے انداز میں رپورٹ کرتے ہیں اس وجہ سے بعض اوقات ریمارکس میں سے سیاسی پہلو نکل آتا ہے۔اس لیے میں مقدمات کی سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس کی نشر و اشاعت کے حق میں نہیں اسی تناظر کی وجہ سے میں ججز کے سیمینارز سے خطاب کے بھی حق میں نہیں ہوں۔ میری رائے ہے کہ جج کو خود نہیں بولنا چاہیے بلکہ اس کے فیصلوں کو بولنا چاہیے۔ جہاں تک میری معلومات ہیں ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں ایسے سیمینار سے خطاب کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

سیمینار کا عنوان تھا کہ عدلیہ کب سرخرو ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں سادہ سی بات ہے کہ جب عام آدمی کو بروقت اور سستا انصاف ملنا شروع ہو جائے گا تو عدلیہ سرخرو ہو جائے گی۔ جب لوگ انصاف سے پر امید ہو جائیں گے تو عدلیہ سرخرو ہو جائے گی۔ جب عام آدمی کا عدالتوں پر اعتماد پختہ ہو جائے گا تو عدلیہ سرخرو ہو جائے گی۔ لیکن اگر عام آدمی کے مقدمات سالوں نہیں دہائیوں تک زیر التوا رہیں گے تو عدلیہ کیسے سرخرو ہوگی۔

جب ججزکی چھٹیوں کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہو گا تو عدلیہ کیسے سرخرو ہوگی۔ جب عدلیہ میں اختلافات کھلے عام نظر آنے لگیں گے تو عدلیہ کیسے سرخرو ہوگی۔ جب کسی جج کا نام سن کر فیصلے کا اندازہ ہو جائے تو عدلیہ کیسے سرخرو ہو گی۔ جب اہم ترین اور حساس نوعیت کے مقدمات میں دیے جانے والے فیصلے مسئلے کے حل کے بجائے مزید مسائل پیدا کر دیں تو عدلیہ کیسے سرخرو سمجھی جائے گی۔ جب عالمی سطح پر عدلیہ کا نمبر بہت نیچے ہو تو نظام انصاف کیسے سرخرو ہو سکتا ہے۔

یہاں میں یہ بات بھی کرنا ضروری سمجھتا ہوں، عدلیہ میں سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ الجہاد ٹرسٹ کا ایک فیصلہ موجودہے۔ اس لیے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کی وجہ سے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اگر عدلیہ سنیارٹی کے اصول کو لازم سمجھتی ہے تو اسے اس اصول پر مکمل طور پر عمل کرنا چاہیے یہ ممکن نہیں کہ ہائی کورٹس میں یہ اصول نظر انداز کیا جائے اور سپریم کورٹ میں عمل کیا جائے۔کیا ایک قانون الجہاد ٹرسٹ کے فیصلے کو ختم کر سکتا ہے۔ کیونکہ آج کل قانون سے عدالتی فیصلہ ختم کرنے کا رجحان بھی نظر آرہا ہے۔

جناب جسٹس منصور علی شاہ نے سیمینار سے اپنے خطاب کے دوران واضح کیا ہے کہ ایگزیکٹوکے پاس عدالتی فیصلوں پر عمل کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمدکوئی احسان کی بات نہیںہے یہ آئین کے تحت لازمی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئین اور قانون کے تناظر میں یہ بات بالکل درست ہے۔ ایگزیکٹو سے مراد حکومت ہے۔ حکومت کے پاس عدالتی احکامات کی حکم عدولی کاکوئی اختیار نہیں ہے۔

عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے پر عدلیہ کے پاس وزیراعظم سمیت پوری حکومت کو گھر بھیجنے کا اختیار موجود ہے۔ عدلیہ نے ماضی میں یہ اختیار استعمال بھی کیا ہے۔ ہم سب کو یاد ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کے تحت گھر بھیجا گیا تھا۔ نواز شریف کو بھی عدالتی فیصلوں سے گھر بھیجا گیا ہے۔بھٹو کو عدالتی فیصلے سے پھانسی دی گئی۔ بے نظیر بھٹو کو سزا سنائی گئی۔ ان سب سزاں پر رائے موجود ہے کہ یہ درست فیصلے نہیں تھے۔ لیکن ان تمام فیصلوں پر عمل ہوا ہے۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں ایسے فیصلوں پر عمل ہوا ہے جن کے بارے میںیہ رائے رہی ہے کہ وہ غلط فیصلے تھے۔

اس لیے پاکستان میں عدلیہ کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کی کوئی مثال نہیں۔ حکومت وقت نے ہمیشہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کیا ہے۔ اور خوشی سے نہیں کیا ہے بلکہ اس ڈر سے کیا ہے عدلیہ انھیں گھر بھیجنے کا اختیار رکھتی ہے۔ لہذا اس ایشو پرسیمینارز میںبات کرنے کی اتنی ضرورت بھی نہیں ہے۔جناب جسٹس منصور علی شاہ سمیت تمام قانون دانوں اور حکومتی عہدیداروں تک کو علم ہے۔ اگر حکومت سپریم کورٹ کے کسی حکم پر عمل نہیں کرے گی تو وزیراعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے تحت گھر بھیج دیا جائے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ جیل بھی ہو جائے۔ پاکستان میں آج مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی بلکہ سوال پارلیمان کا ہے۔

یہ موقف ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عدالتی فیصلہ درست ہے یا غلط۔ جہاں تک فیصلے پر عملدرآمد کی بات ہے تو وہ بالکل درست ہے۔ لیکن فیصلے پر تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ جب فیصلہ آجائے تو اس پر رائے دینا اور اس پر تبصرہ کرنے کی آئینی و قانونی اجازت ہے۔ جیسے فیصلے پر عملدرآمد ہونا آئینی تقاضہ ہے۔ ایسے ہی رائے دینے کی بھی آئینی اجازت ہے۔ اس لیے عدلیہ اپنے فیصلوں پر بات کرنے کی اجازت ختم نہیں کر سکتی۔ اگر فیصلے پر تنقید ہو رہی ہے تو برداشت کرنا ہوگی۔ فیصلہ عوام کی ملکیت ہوتا ہے اور عوام اس پر رائے دے سکتے ہیں۔ اگرفیصلوں پر رائے اور تبصرہ بند کرنا ہے تو پھر مارشل لا لگانا ہوگا۔

آج سوال یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں بالا دست کون۔ کیا پارلیمان کا قانون بنانے کا اختیار مشروط ہو سکتا ہے؟ کیا عدلیہ پارلیمان کے بنائے ہوئے قوانین مسترد کر سکتی ہے؟جہاں تک مخصوص نشستوں کے حالیہ فیصلے پر عمل کروانے کی بات ہے تو اس میں حکومت رکاوٹ بن ہی نہیں سکتی کیونکہ ایسا کر کے اس کے پاس اپنے آپ کو بچانے کا کوئی آئینی اور قانونی آپشن نہیں ہے۔ اب معاملہ پارلیمان کا ہے۔ کیا عدلیہ پارلیمان کو توہین عدالت کا نوٹس دے سکتی ہے۔کیا عدالتی فیصلے کے ذریعے پارلیمان کو گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ آج کا اہم سوال یہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس