شاہی‘‘ عدل کا نیا دور! : تحریر سہیل وڑائچ’’


تضادستان لرزہ براندام ہے کہ ملک کے سپریم ادارے میں ’’منصور شاہی ‘‘ دور کی آمد آمد ہے۔ نونی حکومت کی خوف سے گھگھی بندھی ہوئی ہے اور بقول خواجہ آصف دو ماہ میں انکی حکومت کی چھٹی کرانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ مقتدرہ تشویش میں مبتلا ہے کہ اس نئے دور میں حالات اور فیصلوں کا مقابلہ کیسے ہوگا؟گویا اتحادی حکومت اور طاقت کے سرچشموں میں ’’منصور شاہی ‘‘دور کے حوالے سے جو کیفیت نظر آتی ہے وہ شعری زبان میں کچھ یوں ہے؎

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

رن ایک طرف ، چرخ کہن کانپ رہا ہے

ایک طرف صف ماتم بچھی ہوئی ہے تو دوسری ڈھول تاشے،تُوتیاں باجے، دھمالیں اور لڈیاں ڈالی جا رہی ہیں کہ دو ماہ کے بعد مخلوط حکومت تہہ خاک ہو گی اور کپتان کا پھرسے بول بالا ہو گا۔بظاہر کسی نئے عدالتی دور کی آمد کے حوالے سے نہ اس طرح کے خدشات ہونے چاہئیں اور نہ اس طرح کی توقعات۔ یہ دونوں طرح کے جذبات غلط ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدلیہ کا آئینی کردار حکومتیں لانا، انہیں گھر بھیجنا یا پھر کسی حکومت کیلئے خطرہ بننا یا کسی جماعت کیلئےسیاسی امیدوں کا دروازہ کھولنا ہے؟ بدقسمتی سے چونکہ عدلیہ ماضی میں یہ کردار ادا کرتی رہی ہے، اس لئے خدشات اور توقعات کا جنم لینا خلاف حقیقت نہیں ۔

نئے آنے والے چیف جسٹس آئین پسند اور معتدل منصف کی حیثیت سے مشہور ہیں ،نامور سید فیملی کے چشم و چراغ ہیں،ان کے مالی معاملات کسی شک و شبے سے بالاتر ہیں اور اس کی تحقیق و تفتیش سے بھی یہی ثابت ہوا ہے۔ ماضی کی کوئی بڑی غلطی ان کےسامان کی گٹھڑی میں نہیں ہے مگر بقول بے نظیر بھٹو عدالتوں کے کئی فیصلوں میں ’’چمک‘‘ در آتی ہے، ایک زمانے تک یہ ’’چمک‘‘ طاقت اور خوف سے آتی تھی مگر جب سے اخبارات کی سرخیاں اور ٹی وی سکرینوں کے ٹکر عدالتی خبروں سے چنگھاڑنے لگے ہیں تب سے شہرت اور مقبولیت کی چمک نے انصاف کے چہرے کو دُھندلا نا شروع کر دیا ہے ۔

جسٹس منیروں سے وابستہ پرانی غلطیوں کو تو چھوڑیں حالیہ تاریخ میں پہاڑی غلطیوں کا ارتکاب ہوا ہے۔ کبھی تو آئین بنانے والوں کی سوچ کے برخلاف آرٹیکل 63کی نئی من مانی تشریح کی گئی ،کبھی اپنے چیف جسٹس کو بچانے کیلئےآرٹیکل 109کے ذریعے احتساب کا طریقہ ہی بدل دیا گیا، کبھی وزیر اعظموں کو نکالنے کیلئےآئین کی واضح دفعات کے باوجود آرٹیکل 184/3کو 58ٹو بی کا متبادل بنا دیا گیا، کبھی توہین عدالت اور کبھی میمو گیٹ کے جھوٹے اور من گھڑت افسانوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کو کمزور کیا گیا اور کبھی حب الوطنی کی جھوٹی آڑ لیکر سٹیل مل کی نجکاری کو روکا گیا، یوں ملکی خزانے اور پالیسیوں کو اربوں کھربوں کا نقصان پہنچایا گیا اور کبھی اقامہ کا بہانہ بنا کر وزیراعظم کو رخصت کر دیا گیا۔ یہ سب کرنے کے باوجود جسٹس افتخاروں، ثاقب نثاروں اور کھوسوں کیلئےخیر ہی خیر ہے۔ سب ریٹائرمنٹ کے بعد آرام سے گھر بیٹھے بڑی بڑی پنشنیں کھا رہے ہیں۔ کیا عدالت ِعظمیٰ نے ان پہاڑی غلطیوں پر کسی بڑے جج کا احتساب کیا ہے؟ کیا پوری پاکستانی تاریخ میں آج تک کسی جج کو سزا ہوئی ہے؟ کیا آج تک کوئی فاضل جج ملک کو پٹڑی سے اتارنے کے الزام میں کبھی جیل گیا ہے؟ جغادری سیاست دان ہوں، جرنیل یا جرنلسٹ سب عدالتوں میں مارے مارے پھرتے رہے ہیں۔ جج اپنے ہی ادارے کے احتساب سے مستثنیٰ کیوں ہیں؟ تینوں بڑے جیم یعنی جغادری سیاست کار، جرنیل یا جرنلسٹ تو کردہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتے رہے۔ چوتھی بڑی جیم ،جج کیا فرشتے ہیں یاکوئی خلائی مخلوق ہیں کہ عدلیہ انہیں علامتی سزا تک نہیں دیتی۔

جسٹس انوارالحقوں، مولوی مشتاقوں اور ان کے ہم نشینوں نے بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا، عدالت عظمیٰ نےیہ فیصلہ غلط بھی قرار دیدیا مگر ان بڑے ناموں کے خلاف نہ ایک لفظ کہا نہ لکھا، نہ علامتی سزا دی، نہ انکی مراعات واپس لیں، نہ ان کی تصویریں عدالتوں سے ہٹائیں۔میڈیا کے سب سےبڑے ستون روزنامہ جنگ اور جیو کیساتھ ناانصافیاں کرنیوالوں کو کیا سزا ملی،آنکھ ابھی تک دیکھنے کی منتظر ہے۔ کیا جسٹس منیروں اور ان جیسوں کی تصویریں عدالتوں کی زینت رہنی چاہئیں جو اسمبلیاں توڑنے کی توثیق کرتے رہے۔ کم از کم عدالتیں یہ مثال تو قائم کریں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ غلط فیصلوں اور چمکدار رویوں کی بھی کوئی سزا ہوتی ہے۔

ایک آئین پسند شہری کی حیثیت سے مجھے علم ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نہ ماننا آئینی جرم ہے کیونکہ جب سپریم کورٹ کا فائنل فیصلہ آ جاتا ہے تو پھر ریاست کے اداروں کیلئے اس فیصلے کو ماننا آئینی طور پر لازم ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت کو ماننے کے بعد یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ آئین نے پارلیمینٹ کو سپریم قرار دیا ہے کسی بچے سے بھی پوچھ لیں اس کو علم ہے کہ آئین نے پارلیمینٹ کو سپریم قرار دیا ہوا ہے مگر یہ سب سے بڑی حقیقت کئی عالم فاضل ججوں کو سمجھ نہیں آتی اور وہ بار بار اِسے نظرانداز کرتے ہیں جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہ ماننا آئینی جرم ہے پارلیمینٹ کو سپریم نہ جاننا اس سے بھی بہت بڑا آئینی جرم ہے ۔پہلے عدلیہ اور مقتدرہ ملے ہوتے تھے اس لئے عدلیہ پارلیمان کے خلاف فیصلے کرکے مقتدرہ کی قوت نافذہ کے تحت انہیں زبردستی منوا لیتی تھی، اب بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ سپریم کورٹ کا اخلاقی اور آئینی رتبہ بلند سہی مگر اپنے فیصلوں کو روبہ عمل لانےکیلئے وہ حکومت اور مقتدرہ کی مرہون منت ہوتی ہے اسی لئے عدلیہ کا ’’منصور شاہی‘‘ دور اپنے فیصلوں کے نفاذ کے حوالے سے بحرانوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ عدلیہ، مقتدرہ اور حکومت آمنے سامنے ہونگے ایک نیا آئینی، عدالتی اور اخلاقی بحران پیدا ہو گا۔ ہم سالہا سال سے مقتدرہ کی آمریت، سیاست دانوں کی فسطائیت اور نوکر شاہی کی بےحسی کو برداشت کرتے آ رہے ہیں، جسٹس افتخار چودھری کے دور سے لیکر آج تک ہم عدلیہ کی آمریت کو بھی بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اگر ہمارے فاضل جج معیشت کے فیصلے بھی کریں گے، پوسٹنگ ٹرانسفر کی بھی نگرانی کریں گے۔ آئی جی اور چیف سیکرٹریوں کو آئے روز طلب کریں گے، وزیراعظموں کو خود ہی رخصت کریں گے اور ثاقب نثاروں کی طرح آنے والی حکومت کی انتخابی مہم بھی چلائیں گے،ڈیم فنڈ بھی اکٹھا کریں گے، ہسپتالوں کابھی معائنہ کرینگے، توخودہی حکومت کیوں نہیںسنبھال لیتے، سیاست دانوں کی چھٹی کرائیں اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جس طرح سارے چیف جسٹس گورنر بن گئے تھے اب بھی خود ہی اقتدار سنبھال لیں ۔سیاست ، معیشت اور سماج کے سدھار کا کام اپنے ذمے لے لیں ہوسکتا ہے کہ یہ غیر منتخب قابل جج واقعی ملک کی تقدیر بدل دیں۔

کالم کے آخر میں عرض ہے کہ ہر ادارے کو اپنی اپنی حدود میں رہنا چاہئے۔ عدلیہ پارلیمان کی جگہ نہ سنبھالے، جج حکمران بننے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی سیاست دان جج بننے کی کوشش کریں، اسی طرح جرنیل جب بھی سیاست کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں جس جس جج نے یکطرفہ مقبول یا غیر مقبول فیصلے کئے ہیں وہ تاریخ میں کالے حروف سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ توقع یہی ہے کہ نئے چیف جسٹس خود کو سیاست سے بچاتے ہوئے غیر جانبداری برتیں گے نہ کسی کی خوشی کیلئے کسی کو گرائیں گے اور نہ غصے میں آکر بحران کو جنم دینگے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ