ماؤں کی حکومت : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


پنجابی محاورہ ہے جنہاں دے گھر دانے، اوہناں دے کملے وی سیانے۔ کسی بھی محاورے کی بہت سی توجیہات اور تشریحات کی جاسکتی ہیں مگر میرے نزدیک اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ خوشحال سرزمین کے باسیوں کی فطرت میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پائے جاتے ہیں، ان کے کم ذہن لوگ بھی سماجی معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور اُنکے عمل سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ پنجاب اپنی معلوم تاریخ سے ہی خوشحال اور کمال خطہ رہا ہے، فصلوں کے سونا چاندی، دریاؤں کی شادابی کیساتھ تجارت، تعلیم اور ہنرمندی میں بھی مالا مال رہا ہے۔ جب گھر میں نعمتوں کی فراوانی ہو، بھوک کا خوف نہ ہو تو انسان کے اندر عالی ظرفی اور وسعت خیالی اور آفاقی انسانی قدریں جنم لیتی ہیں، رفتہ رفتہ وہ اس کی عادت اور پھر جینز کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یہی مثبت رویے آج بھی پنجاب کی پہچان ہیں، حالیہ اولمپک کھیلوں میں ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کی ماؤں نے انہی رویوں کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ہمیں یاد دلایا کہ ہم فطرتاً آج بھی ایسے ہی ہیں۔ ہمیں مختلف ادوار کے جبر نے دل کی بات کہنے سے روکے رکھا مگر وہ ہماری فطرت تبدیل نہیں کر سکتے۔ پہلے جب کبھی ہندوستان اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا وہ کھیل کی بجائے جنگ کا منظرنامہ پیش کرتا تھا۔ ہار جیت کے بعد ایک دوسرے کیخلاف نفرت انگیز نعروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا مگر پہلی بار پیرس میں ارشد ندیم، نیرج چوپڑا اور پاکستان ہندوستان میں اُنکی ماؤں نے اپنے مشفقانہ رویے سے دوستی، اعلیٰ ظرفی اور اچھی ہمسائیگی کا سبق دیا ہے۔ یہ سبق دونوں ملکوں کے لوگوں کی اکثریت کے رویوں میں نظر آنا چاہئے، کیونکہ پانچ دس فیصد لوگ فطرتاً نفرت، جنگ اور تعصب کی ٹھیکیداری پر مامور ہوتے ہیں اور وہ کسی دلیل سے قائل نہیں ہو سکتے، لیکن بدقسمتی سے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر انہی کی نفرت دکھائی جاتی ہے، امن پسندوں کی سوچ اور رویے اوجھل ہی رہ جاتے ہیں، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان صدیوں کے ثقافتی، لسانی اور روحانی اشتراکات موجود ہیں جو باہمی کشش کا باعث ہیں، دونوں ایٹمی پاور کے حامل ملک جنگ کے روادار نہیں اور نہ ہی جنگ کسی مسئلے کا حل ہوسکتی ہے، کشمیر یوں کے حق خود ارادیت سمیت تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہو سکتے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں جمہور اگر کسی نکتے پر متحد ہو جائیں تواپنی سرکاروں کو قائل کر سکتے ہیں، ضرورت مثبت رویوں کی حامل اکثریت کے متحرک ہونے کی ہے، جس کا آغاز پنجاب کی دو ماؤں نے کر دیا ہے ، اسلئے اب پنجاب کو اس نیک کام میں آگے آنا ہوگا کہ تقسیم اور جنگوں میںسب سے زیادہ لہو پنجاب کا بہا ہے۔ ارشد ندیم کی فقید المثال کامیابی نے مایوسی کی رات میں بھٹکتی قوم کو خوشبودار مہکتی صبح جیسا احساس بخشا ہے، اُسکی انفرادی کوشش نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پنجاب کے نوجوان کس قدر صلاحیتوں کے مالک ہیں، کبھی پنجاب کے پہلوانوں، ہاکی کے کھلاڑیوں اور دیگر کھیلوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کا دنیا بھر میں چرچا ہوتا تھا ، پھر کرکٹ ہم پر ایسے فرض ہوئی کہ ہم نے خود باقی تمام کھیلوں کی ترقی کے راستے مسدود کر دیئے۔ رانا مشہود احمد خان وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے پنجاب کے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور کھیلوں کی ترویج میں تاریخ ساز کام کیا، تربیت اور اظہار کا پلیٹ فارم نہ ہونے کے باعث پنجاب کے گیم کلبوں میں بھی پنجاب کے نوجوانوں کی نمائندگی ختم یا برائے نام رہ گئی تھی، ان یوتھ فیسٹیولز میں پورے صوبے کے نوجوانوں کی عمدہ کارکردگی دیکھ کر مستقبل بہت تابناک دکھائی دینے لگا تھا لیکن مثبت کام کرنیوالوں کیلئے مشکلات کھڑی کرنے میں ہمارے ادارے کمال صلاحیت رکھتے ہیں، باہر سے آکر مشیر وزیر بننے والے راتوں رات ملک لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں مگر یہاں رہنے والوں کو نہ صرف کام سے روک دیا جاتا ہے بلکہ بار بار یوں رسوا کیا جاتا ہے کہ بندہ کام ترک کردینے میں عافیت سمجھنے لگے۔ رانا مشہود احمد خان مگر کام پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیشہ پرعزم رہتے ہیں، وزیراعظم سے گزارش ہے کہ ارشد ندیم کی کامیابی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ کہ اسکے نام پر وفاقی سطح پر ایتھلیٹکس کمپلیکس قائم کیا جائے اور رانا مشہود احمد خان کو اُسکا سربراہ بنائیں ، تمام صوبوں کے اسکولوں میں گیمز کو لازمی کریں ، ضلعی سطح پر مقابلہ جات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالوں کو کمپلیکس میں تربیت دی جائے۔یقیناً یہاں سے نکلنے والے ملک وقوم کا نام سربلند کریں گے ۔ماں محبت اور ایثار کا نام ہے اپنے بچے کے ساتھ دوسرے بچوں کی بھی خیرخواہی اس کی فطرت میں ہے ،زندگی کی بقا اور خطے کے امن کیلئے آئیے ماں کی سوچ کو حکمران بنائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ