انقلاب یعنی Revolution لاطینی لفظ ریوویشیو سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی طاقت، تنظیم یا حکومتی ڈھانچے میں مکمل تبدیلی کے ہیں ___ایسی تبدیلی جس میں بتدریج صرف حکومتی نظام داری ، سیاسی بالادستی اور جبر کا ہی خاتمہ نہیں ہوتا ہے بلکہ معاشرتی، سماجی قدروں کے علاوہ معاشی، قانونی اور اداراتی نظام بھی بدل جاتا ہے معاشرے میں ساختی تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے اگر چہ انسانی سماج میں جدلیات عمل کے ذریعے آہستہ آہستہ ارتقائی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں مگر جب حالات کے جبر اور بالادست طبقوں کے استحصالی رویوں کے خلاف لوگوں میں بے چینی اور بغاوت کے اثرات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں اور جب عوامی جذبات کو ممیز دینے والا کوئی رہنما سامنے آجا تا ہے تو پھر عوامی تحریک کے سامنے حکمران ڈھیر ہو جاتے ہیں جدلیاتی تبدیلیوں کی آہستگی پر ایک بھاری ضرب پڑتی ہے اور انقلاب وقوع پذیر ہو جاتا ہے بعض انقلاب جیسا کہ انقلاب فرانس، انقلاب چین اور ایران کے وسیع تر ملکی اور بین الاقوامی اثرات ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہی جیسے ایوب خان کی 10 سالہ آمریت کو نوجوان طلبہ کی تحریک نے ختم کر دیا مگر بدقسمتی سے ایک فوجی ڈکٹیٹر سے دوسرے فوجی ڈکٹیٹر نے جگہ لے لی اور ملک ہی توڑ دیا مگر بنگالی نوجوان طلبہ و طالبات نے اپنے انقلاب کو ہائی جیک ہونے سے بچا لیا اور عبوری حکومت کو آرمی چیف کی مرضی سے نہیں بننے دیا بلکہ ان کے اصرار پر ڈاکٹر یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا اور دو طالب علم رہنما ناہد اسلام اور آصف محمود بھی حکومت کا حصہ بنے ہیں چونکہ بنگلہ دیش کے لوگوں میں سیاسی شعور تاریخی طور پر ہم سے زیادہ ہے لہذا وہاں پر جمہوریت کے نام پر سول فسطائیت تو قائم ہو جاتی ہے مگر وہاں پر مارشل لاء اور طویل آمریت رائج کرنا مشکل امر ہے سول ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کے چکر میں شیخ مجیب جو بنگلہ بدھو تھا مارا گیا جبکہ اس کی بیٹی کو ملک بدر ہونا پڑا یہ الگ بات ہے کہ جب کہیں کوئی انقلاب یا بغاوت رونما ہوتی ہے تو حالات پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو جاتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت کو پہلے سے بھی زیادہ بدتر مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے لوگوں کو مزید جبر اور دباؤ کا سامنا ہے عورتوں کی تعلیم اور ملازمتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور طالبان حکومت کا رویہ عوام کے ساتھ سابقہ حکومتوں کی نسبت زیادہ فاشسٹ ہے عرب سپرنگ کی وجہ سے لیبیا، مصر، تیونس میں ڈکٹیٹر شپ ختم ہوئیں علاوہ ازیں عراق سے صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوا مگر اس کے بعد کیا ہوا کہ آج مصر، تیونس، لیبیا، عراق شام میں ہر طرف تباہی اور بربادی کا راج ہے جبکہ تیل کی دولت سے مالا مال ان ممالک کے عوام انقلاب سے پہلے بہتر معاشی حالات اور قدرے امن میں رہ رہے تھے شیخ حسینہ کا آمرانہ طرز حکومت اور انڈیا کے ساتھ دوستی اپنی جگہ مگر اس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کے عہد میں بنگلہ دیش ایک اقتصادی طاقت بن کر ابھرا معاشی ترقی کی شرح نمو مسلسل کئی سالوں سے چھ فیصد کے آس پاس رہی اورآج بھی بنگلہ دیش کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 50 ارب ڈالرز کے قریب ہیں جبکہ بنگلہ دیش 1971 میں جنوبی ایشیا کا غریب ترین ملک تھا بنگلہ دیش کے عوام میں تاریخی سیاسی شعور ہے اقتصادی ترقی کے باوجود وہ نہ تو ہندوستان اور نہ ہی کبھی مغربی پاکستان کے کے دباؤ میں آئے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ لمبے عرصے تک حسینہ واجد کی فسطائیت اور جبر کو برداشت کرتے جب وہاں کی سیاسی جماعتوں کو عوامی لیگ نے فکس کر دیا ان کے رہنماؤں کو جیلوں میں پھینک دیا جماعت اسلامی کے لیڈران کو پھانسی دے دی گئی تو پھر کوٹہ سسٹم کے خلاف نوجوان طلبہ و طالبات نے تین سو جانوں کی قربانیاں دے کر حکومت کا تختہ الٹ دیا بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے اپنے ملک میں رہ کر میرٹ کے لیے احتجاج کر کے حکومت بدل دی جبکہ پاکستانی طلبہ و طالبات کو بھی اس سے یہ تحریک ملے گی کہ باہر جانے کی بجائے اپنے ملک میں رہ کر اپنے جائز حقوق کا دفاع کریں پاکستان میں عرصہ دراز سے سول سروسز میں کوٹہ سسٹم کنکریٹ لسٹ سے ختم ہو چکا ہے مگر ہر حکومت سیاسی مصلحتوں کی خاطر اس کو سودی نظام کی طرح بار بار بحال کر دیتی ہے بنگلہ دیش میں ڈاکٹر یونس نے عورتوں کو کاروبار کے لیے آسان شرائط پر قرضے دے کر ہنرمند بنا کر اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا ہے جبکہ ہمارے ہاں غریب خواتین کو ہزار روپے کی انکم سپورٹ دے کر محتاج بنا کر رکھا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ڈاکٹر یونس کو عوام عزت اور احترام سے دیکھتے ہیں اور طلباء نے انہیں عبوری حکومت کا سربراہ نامزد کیا ہے اگر چہ بنگلہ دیش کے سیاسی حالات کا موازانہ پاکستان سے کرنا مشکل ہے مگر بہت ساری مماثلتوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں فوجی آمریت یا ہابریڈ نظام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے جبکہ پاکستان مسلسل براہ راست یا بالواسطہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بوٹوں کے نیچے رہا ہے عمران خان کا کہنا ہے “حسینہ واجد نے اپنی مرضی کا آرمی چیف لگایا تا ہم اس آرمی چیف نے اپنے لوگوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا بنگلہ دیش سے برے حالات پاکستان میں ہیں ہمارے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری بنگلہ دیش کی نسبت زیادہ ہے جس طرح حسینہ واجد بنگلہ دیش سے فرار ہوئی ہے اسی طرح پاکستانی حکمرانوں نے بھی جلد اس ملک سے فرار ہونا ہے لہذا ضروری ہے کہ ان کے فرار کے تمام راستے بند کر دیے جائیں”
آج ہم کہ سکتے ہیں کہ جزوی طور پر پر ہمارے ملک میں سیاسی حالات حسینہ واجد کے دور کے ہیں حسینہ واجد بھی دھاندلی سے برسر اقتدار آئیں اور بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا اور پوری دنیا کے ممالک نے ان انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے تھے بعینہ ہی پاکستان میں مسلم لیگ ن کی وفاق اور پنجاب کی حکومتیں دھاندلی اور فارم 47 پر بنی ہیں اور عدلیہ کے خلاف حکومت کی محاذ آرائی کی وجہ یہی ہے کہ کہیں الیکشن ٹربیونلز ان کی دھاندلیوں کے پول نہ کھول دیں اور تحریک انصاف کو وہ سیٹیں مل گئیں تو حکومت ختم ہو جائے گی اگر موجودہ حکومت نے عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے تحریک انصاف اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھی تو وہ دن دور نہیں کہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام کا مشترکہ سیاسی اتحاد ملک گیر احتجاج شروع کر دے گا جو کسی صورت میں بھی حکومت کے لیے بہتر نہیں ہو گا اور نہ ہی حکومت کسی منظم سیاسی تحریک کا سامنا کرنے کی اہلیت اور طاقت رکھتی ہے اور پاکستان کے نوجوان اور خواتین بھی بنگلہ دیش کے عوام کی طرح بہترین سیاسی شعور کی حامل ہیں اور انہوں نے پی ڈی ایم کی حکومت سے لیکر موجودہ حکومت میں جس قدر ظلم اور جبر، قید و بند اور ناجائز مقدمات کا سامنا کیا ہے اس کی بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے جن کو ہم برگر بچے کہہ کر مذاق آڑاتے تھے وہ اپنی جواں مردی سے لوہے کے چنے ثابت ہو ئے ہیں اور ان نوجوان سیاسی کارکنوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جب بھی حالات کی بھٹی گرم ہو گی تو وہ انقلاب کی نوید سحر بن کر نمودار ہو ں گے ان کے متعلق یہی کہوں گا
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے