آجکل ملکی اور عالمی حالات میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔
گزشتہ کالم میں وعدہ کیا تھا کہ ہمارے سمجھ دار دوست جناب جاوید نواز نے ملکی معیشت میں بڑے بڑے سوراخوں کی ایک فہرست بھیجی ہے، وہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی تاکہ اُنہیں صورتِ حال کی سنگینی کا درست اندازہ ہو سکے۔ اقتصادی ماہرین اور سیاسی دماغ اُن پر نہایت سنجیدگی سے غوروخوض کرتےہوئے ایک جامع اور قابلِ عمل اصلاحی منصوبہ ترتیب دے سکتے ہیں۔ وقت بڑی سرعت کے ساتھ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور صرف بجلی کے ہوش رُبا بِلوں نے زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اُن کیخلاف عوام کے اندر پائی جانے والی پریشانی ایک عوامی مہم کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ جماعتِ اسلامی بڑی حکمت اور پُرامن طریقے سے رائےعامہ منظم کر رہی ہے جس کا اربابِ حکومت کو مثبت جواب دینا چاہئے۔ ظلم کا عالم یہ ہے کہ ہمارا گھر بڑی احتیاط سے بجلی استعمال کرتا ہے، مگر اگست میں ایک لاکھ پچہتر ہزار رُوپے کا بل آیا ہے جو سخت پریشانی کا باعث بنا ہے۔
جاوید نواز صاحب نے بارہ سوراخوں کی نشان دہی کی ہے کہ اگر وہ بند کر دیے جائیں، تو عوام کو ایک بڑے عذاب سے بھی نجات مل سکتی ہے اور ہماری معیشت میں قابلِ رشک استحکام بھی آ سکتا ہے۔ اُس فہرست میں سب سے بڑا سوراخ 17 بلین اور 400 ملین ڈالر سالانہ کی وہ رَقم ہے جو یو این ڈی پی کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے صدر، وزرا، مشیر، جج، جرنیل، سرکاری افسروں اور سرمایہ داروں کو مراعات اور سبسڈی کے نام پر دی جاتی ہے، آئی ایم ایف اُسے ختم کرنے کا 2022ء سے مطالبہ کر رہا ہے۔ دوسرا بڑا سوراخ یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آئی پی پیز) کو ہر سال کیپسٹی چارجز کے طور پر 2.1 ٹریلین روپے ادا کر رہی ہے۔ زیادہ تر پلانٹ حکمرانوں اور اُن کے چہیتوں کی ملکیت میں ہیں۔ تیسرا بڑا سوراخ 520 بلین روپے کی سالانہ بجلی کی چوری اور اُس کا ضیاع ہے۔ اِس عمل میں بجلی تقسیم کرنے والی بڑی کمپنیاں، سرمایہ کار اَور بڑے بڑے جاگیردار شامل ہیں۔
چوتھا سوراخ ملکی معیشت میں اُس وقت پیدا ہوا جب جون 2024ء میں نیپرا نے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو سبسڈی دینے کے لیے بجلی کی قیمت میں 20 فی صد اضافہ کر دیا۔ اب نیپرا اَور بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو ملکی خزانے سے 3800 بلین روپوں کی ادائیگی کی جائے گی۔ پانچواں بڑا سوراخ گیس کی پیداوار اَور اُس کی ترسیل میں چوری اور کرپشن کی فراوانی ہے۔ 2020ء میں وزیرِاعظم انسپکشن ٹیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 2 بلین ڈالر چوری کی نذر ہو جاتے ہیں۔ چھٹا بڑا سوراخ یہ ہے کہ ہر سال ملکی خزانے کو 600 بلین اور 150 بلین روپے بالترتیب تاجروں کی ٹیکس چوری اور برآمدکنندگان کی انڈر اِنوائسنگ کے ذریعے نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
ساتویں بڑے سوراخ کا انکشاف عالمی بینک کی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ پاکستان کی 84 سرکاری کمپنیوں نے ملکی خزانے کو گزشتہ تین برسوں میں ایک ہزار اَرب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ آٹھویں سوراخ کی نشان دی انڈس ریور اَتھارٹی کے ممبر جناب نیر حسین بخاری نے سینیٹ میں ایک بیان دیتے ہوئے کی ہے کہ پانی کو محفوظ کرنے کی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا 21 بلین ڈالر کا قیمتی آبی سرمایہ ہر سال سمندر میں بہہ جاتا ہے۔ ہماری معیشت کے اندر نواں بڑا شگاف یہ ہے کہ پاکستان کے 62 ملین نوجوانوں میں سے 30 فی صد بےروزگار ہیں جس کے باعث ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی معیشت کو ہر سال 31 بلین ڈالر سے زائد کا خسارہ ہو رَہا ہے۔
بہت بڑا دَسواں سوراخ یہ ہے کہ پاکستان کا ہر سال گندم کی کٹائی، ترسیل اور ذخیرہ اندوزی کے دوران ملکی پیداوار کا 20 فی صد ضائع ہو جاتا ہے جو 1500 بلین روپے کے برابر ہے۔ گیارہواں سوراخ یہ سامنے آیا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان ریلوے کو 50 بلین روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ بارہویں سوراخ کی تفصیل یہ ہے کہ پاکستان کے آٹھ قومی ادارے جن میں پی آئی اے بھی شامل ہے، اُن سے گزشتہ سال 2201بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
مَیں ابھی ذہن کو ماؤف کر دینے والے اعدادوشمار پر غور ہی کر رہا تھا اور میری آنکھ سے خون کے آنسو ٹپکنے ہی لگے تھے کہ ہمارا خِطہ اَن ہونے واقعات سے لرز اُٹھا اور حالات اور تعلقات میں آناً فاناً بڑے بڑے شگاف پڑتے چلے گئے۔ تہران میں حماس کے سیاسی سربراہ اَور فلسطین کے سابق وزیرِاعظم جناب اسمٰعیل ہنیہ رات کے اندھیرے میں ایک ریسٹ ہاؤس میں ایک ہولناک دھماکے میں شہید کر دیے گئے۔ وہ اِیران کے نومنتخب صدر مسعود پیزشکیان کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں شرکت کرنے آئے تھے اور حکومتِ ایران کے مہمان تھے۔ اُن کی شہادت سے عالمِ اسلام آنسوؤں اور سسکیوں میں ڈوب گیا ہے اور پوری دنیا میں ایک ہمہ گیر احتجاج ہوا ہے۔ اب ایران اور اِسرائیل آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ ایران کے بالادست سربراہ آیت اللہ علی خامنہ ای نے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے اور شرقِ اوسط تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر آن کھڑا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے وجود میں بہت بڑا شگاف پڑ چکا ہے اور شاید امریکہ بھی اُسے اُس کے منطقی انجام سے نہ بچا سکے۔ اُس نے غزہ میں پچاس ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی کر ڈالے ہیں۔ وہ دَرندگی کی ایک ہولناک علامت بن چکا۔ مجھے آزاد فلسطینی ریاست کا قیام صاف نظر آ رہا ہے۔
چند ہی روز گزرے تھے کہ بنگلہ دیش میں طلبہ کوٹہ سسٹم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک ماہ کی خونریز جھڑپوں میں تین سو سے زائد نوجوان مارے گئے۔ نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہو گئی جو پندرہ سال سے زائد عرصے تک آمرِ مطلق بنی ہوئی تھیں، وہ خوار ہو کر بھارت چلی گئیں۔ جہاں اُنہیں پناہ دَے دی گئی ہے۔ طلبہ نے جس جنونی کیفیت میں شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے توڑے ہیں، اُس سے لگتا ہے کہ عوامی لیگ کا وجود جلد تحلیل ہو جائے گا اور بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوتے جائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ