اگر فوج نہ ہوتی … تحریر : جاوید چودھری


ناہید اسلام کی عمر 26 سال ہے اور یہ ڈھاکا یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم ہے یہ حسینہ واجد کی پالیسیوں کا مخالف تھا جون میں اس نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی طالب علم اس کے گرد جمع ہونے لگے اور وہ تحریک شروع ہو گئی جو آگے چل کر حسینہ واجد کے 16سالہ اقتدار کے خاتمے کی بنیاد بن گئی ان دو ماہ میں حکومت نے ناہید اسلام کو دہشت گرد بھی قرار دیا اس پر کریک ڈاؤن بھی کیا اور اسے پولیس گھر سے بھی اٹھا کر لے گئی اس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا یہ جب مکمل بے ہوش ہو گیا تواسے ڈھاکاکے ایک پل کے نیچے پھینک دیا گیا اسے 26 جولائی کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا لیکن اس وقت تک حالات بدل چکے تھے۔

پولیس خوف زدہ ہو چکی تھی طالب علم آگے بڑھتے رہے اور حکومت پسپا ہوتی چلی گئی اور یہ پسپائی آخر میں پانچ اگست کو حسینہ واجد کے فرار پر ختم ہوئی لیکن سوال یہ ہے کیا یہ حالات چند دنوں میں پیدا ہوئے تھے کیا بنگلہ دیش میں چند دنوں میں تبدیلی آئی تھی؟جی نہیں پانچ اگست 2024کا بیج دراصل 7 دسمبر 1970میں بویا گیا تھا اس دن مشترکہ پاکستان کا آخری الیکشن ہوا تھا جس میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 162 سیٹوں میں سے 160 سیٹیل حاصل کر لیں جب کہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 81 سیٹیں لی تھیں۔

شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت تھی اخلاقی اور دستوری لحاظ سے حکومت اس کا حق تھا لیکن صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیی خان نے اسے یہ حق نہیں دیا شیخ مجیب الرحمن اخلاقی دستوری اور سیاسی لحاظ سے درست تھا ریاست کو اسے حق حکمرانی دینا چاہیے تھایہ معاملہ یہاں تک ٹھیک تھا لیکن آگے چل کر شیخ مجیب نے جو راستہ استعمال کیا وہ غلط نکلا وہ ریاست کے ساتھ لڑ پڑا اور اس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا اس نے 16 دسمبر 1971 کو بھارت کی مدد سے پاک آرمی کو سرینڈر پر مجبور کر دیایہ مجیب الرحمن کی بڑی سیاسی غلطی تھی اور اس کا خمیازہ بعدازاں اسے اور اس کی نسل کو بھگتنا پڑا۔

شیخ مجیب نے سقوط ڈھاکا کے دوران عوام کو یقین دلایا تھا بنگالی مغربی پاکستان اور پاک آرمی کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ہم اگر مغربی پاکستان سے جان چھڑا لیں تو ہم خوش حال بھی ہو جائیں گے اور ترقی یافتہ بھی وہ بنگالیوں کو بھارت کے قریب بھی لے آیا تھا اور اس کھیل میں وہ یہ بھول گیا تھا بنگالی پنجابیوں سے زیادہ بھارت سے نفرت کرتے ہیں یہ پنجاب (مغربی پاکستان) کے ساتھ 24 سال نکال گئے ہیں مگر یہ بھارت کے ساتھ دس سال بھی گزارہ نہیں کر سکیں گے۔

دوسرا قوموں میں خوش حالی محنت اور سکل سے آتی ہے نعروں سے نہیں لہذا جب بنگلہ دیش آزاد ہوا اور عوامی لیگ کی حکومت بن گئی تو عوام کو دور دور تک سونے کے وہ پہاڑ نظر نہ آئے جن کے لیے انھوں نے قربانی دی تھی جن کے لیے یہ مغربی پاکستان سے الگ ہوئے تھے شیخ مجیب1971تک بنگالیوں کی محرومی پنجاب کے کھاتے میں ڈالتے رہے تھے لیکن بنگالی آزادی کے بعد کیوں پس ماندہ اور محروم ہیں؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا دوسری طرف بھارت تاوان جنگ میں بہت کچھ وصول کر رہا تھا بنگلہ دیش اس زمانے میں جیوٹ کی صنعت میں دنیا میں پہلے نمبر پر تھا شیخ مجیب کے زمانے میں جیوٹ کی صنعت اور منڈیاں بھارت شفٹ ہو گئیں جس سے بھارتی تاجرمزید امیر اور بنگالی مزید غریب ہو گئے۔

عوامی لیگ نے کیوں کہ آزادی چھینی تھی لہذا یہ سیاسی جماعت سے غنڈہ پارٹی بن گئی اور اس کے کارندوں نے ملک بھر میں قبضے شروع کر دیے کرپشن اور غنڈہ گردی بھی عام تھی شیخ مجیب اور بھارت دونوں بنگالی فوج کے خلاف تھے ان دونوں نے مل کر فوج کو بھی رگڑا لگانا شروع کر دیا اس کھیل کا اختتام 15 اگست 1975 کی رات ہوا بنگلہ دیشی فوج کا ایک دستہ دھان منڈی میں شیخ مجیب الرحمن کی رہائش گاہ پر پہنچا اور اسے اس کے خاندان ملازمین اور دوستوں سمیت قتل کر دیا آپریشن کے بعد شیخ مجیب کی لاش گھر کی سیڑھیوں پر پڑی رہی اس کی دو بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ ملک سے باہر تھیں یہ بچ گئیں جب کہ باقی خاندان ختم ہو گیا بنگلہ دیش میںاس کے بعد انارکی شروع ہوئی اور یہ مختلف وقفوں میں 2024 تک جاری رہی حسینہ واجد نے 1981 میں سیاست شروع کی۔

یہ والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ بنی اور پھر مارتی دھاڑتی آگے بڑھتی چلی گئی یہ 2024 تک مجموعی طور پر 20 سال بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہیں اور یہ اس لحاظ سے دنیا کی واحد طویل المدت خاتون وزیراعظم ہیں ان کا آخری دور 2009 سے شروع ہو کر 2024 تک مسلسل 15 سال جاری رہا یہ دور معاشی لحاظ سے بنگلہ دیش کے لیے اچھا تھا ایکسپورٹس 45 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں انفرااسٹرکچر اور سوشل ڈویلپمنٹ بھی ہوئی جب کہ دوسری طرف پاکستان کی معیشت مسلسل ہچکولے کھاتی رہی جس کے نتیجے میں ہمارے سیاست دانوں (بے نظیر بھٹو نواز شریف اور عمران خان) نے بنگلہ دیش کی مثالیں دینا شروع کر دیں ہم ان تینوں کے منہ سے مختلف اوقات میں آج بنگلہ دیش کو دیکھیں یہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا وقت نے ثابت کر دیا شیخ مجیب غدار نہیں تھا ہم بھی اگر فوج سے جان چھڑا لیں تو ہم بھی بنگلہ دیش بن جائیں وغیرہ وغیرہ سنتے رہے اور ہمیں ان باتوں پر یقین بھی آتا رہا مگر ہم اس یقین کے دوران ایک بات بھول جاتے تھے اور وہ بات حسینہ واجد کی سوچ تھی۔

قدرت نے حسینہ واجد کو بہت بڑا موقع دیا تھا اس کو چاہیے تھا یہ نفرت کی سیاست ترک کر کے محبت کو اپنا بیانیہ بناتی مگر یہ بدقسمتی سے نفسیاتی طور پر 1975 سے آگے نہ بڑھ سکی اس کی نفرت نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا عوامی لیگ اور عوامی لیگ کے مخالف یہ اپنے مخالفین کو رضا کار کہتی تھی( رضا کار کی اصطلاح نے 1971 میں جنم لیا تھا اس زمانے میں پاک فوج کے ہمدرد رضا کار کہلاتے تھے) اس نے اپوزیشن جماعت اسلامی اور پاکستان کے ہمدرد بہاریوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا جماعت اسلامی کے درجنوں رہنماں کو پھانسی لگا دی گئی خالدہ ضیا کو2018 میں جیل میں پھینکا گیااوریہ اس کے بعد باہر نہیں آسکی۔

نوبل انعام یافتہ معاشی ماہر ڈاکٹر یونس کے خلاف 174 مقدے بنا دیے گئے اور یہ جلاوطن ہونے پر مجبور ہو گئے حسینہ واجد نے اپنے خاندان اور پارٹی کے لوگوں کو پولیس عدلیہ اور فوج میں گھسا دیا پولیس اس کے گھر کی لونڈی تھی عدلیہ عوامی لیگ تھی اور فوج کی سربراہی اس کے خاندان میں تھی موجودہ آرمی چیف جنرل وقار الزمان بھی حسینہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس نے ایک بار نواز شریف سے کہا تھا ہماری فوج سے جس دن کاکول اکیڈمی سے پاس آٹ ہونے والا آخری کیڈٹ ریٹائر ہوا ہم نے اس دن ترقی کا پہلا زینہ طے کیا یہ بھارت کو بھی مزید ملک کے اندر لے آئی اس کی بھارت نوازی کی وجہ سے بنگلہ دیش بھارت کی 29ویں ریاست (صوبہ) کہلانے لگا تھا اس کے اندر ایک بدترین ڈکٹیٹر چھپا ہوا تھا مخالفین کو قتل کرانا ججوں کے ذریعے فیصلے لینا اور فوجی افسروں کو سرعام ذلیل کرنا اس کامعمول تھااور آخر میں اس کا نتیجہ پانچ اگست 2024کی شکل میں نکلا طالب علموں کی تحریک شروع ہوئی اوریہ آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔

وزیراعظم نے 23 جون کو اپنے رشتے دار جنرل وقار الزمان کو آرمی چیف بنایا تھا اس کا خیال تھا یہ اس کی حکومت سیاست اور مال و دولت کی حفاظت کرے گا لیکن صرف سوا ماہ بعد جنرل وقار الزمان اس کے سامنے بیٹھا تھا اور اسے مشورہ دے رہا تھا میڈم آپ کے پاس صرف 45 منٹ ہیں آپ استعفی دے کر نکل جائیں ورنہ ہجوم وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہو کر آپ کو قتل کر دے گاآرمی چیف نے اس پیش کش سے قبل ہیلی کاپٹر اسٹارٹ کرا دیا تھا لہذا حسینہ واجد دوڑ کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھی اور یہ اسے لے کر انڈین شہر اگر تلہ چلا گیا حسینہ واجد جب اگر تلہ اتری تو اس کے پاس ہینڈ بیگ اور تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا اور یوں حسینہ واجد کا طویل ترین سیاہ کیریئر اختتام پذیر ہو گیا۔

پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کا اس وقت محبوب ترین موضوع بنگلہ دیش ہے ماہرین مختلف زاویوں سے بنگلہ دیش کا تجزیہ کر رہے ہیں لیکن ایک زاویہ ابھی تک ان کی نظروں سے اوجھل ہے اور وہ ہے فوج کا کردار حسینہ واجد نے بنگلہ دیشی فوج کو بڑی حد تک پولیس بنا دیا تھا یہ سلیوٹ اور وزیراعظم کو سیکیورٹی دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی تھی لیکن اس کے باوجود فوج ملک کا سب سے بڑا اور مضبوط ادارہ رہا اور اس نے پانچ اگست کو آگے بڑھ کر حالات کنٹرول کر لیے جنرل وقار الزمان نے رشتہ دار ہونے کے باوجود حسینہ واجد سے استعفی بھی لیا اور ہجوم کو بھی قابو کر لیا اگر فوج نہ ہوتی تو اس وقت بنگلہ دیش کی کیا حالت ہوتی؟ بنگلہ دیش کے ہنگاموں میں اب تک ساڑھے چار سو لوگ قتل ہوئے ہیں اگر فوج نہ ہوتی تو اس وقت گلیوں میں تین چار لاکھ لوگوں کی لاشیں پڑی ہوتیں اور تمام سرکاری املاک کو آگ لگی ہوتی اور عوامی لیگ کے لوگوں کا نام ونشان تک مٹ چکا ہوتا فوج کا سیاسی کردار دنیا کے ہر ملک میں غلط ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں بھی غلط ہے فوج کو سیاست سے باہر ہونا چاہیے لیکن اس کردار کے باوجود بہرحال یہ حقیقت ہے فوجیں ملک کی بقا کی ضامن ہوتی ہیں اگر آج امریکا چین اور روس کی فوجیں ختم ہو جائیں تو کل آپ ان ملکوں کی حالت دیکھ لیجیے گا 1992میں سوویت یونین کی فوج ذرا سی کم زور ہوئی تھی اور ایک سال میں 15نئے ملک بن گئے تھے آج اگر بنگلہ دیشی آرمی بھی نہ ہوتی تویہ بھی گیا تھا لہذا یاد رکھیں جس دن ہماری آرمی گئی اس دن ہم بھی پانچ حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے مگر اس تقسیم سے پہلے خانہ جنگی ہو گی اور لاکھوں لاشیں گلیوں میں پڑی ہوں گی لہذا سیاسی جدوجہد ضرور کریں فوج کا سیاسی کردار بھی صفر پر لے جائیں مگر اس کے ساتھ ساتھ فوج کی حفاظت بھی کریں یہ ملک اس کے بغیر بچ نہیں سکے گا ہم مانیں یا نہ مانیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس