ایک ہی وقت میں دو بڑے واقعات رونما ہوگئے ، بنگلہ دیش میں دیکھتے ہی دیکھتے وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ، اسرائیل نے ایران کے اندر حملہ کرکے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو شہید کردیا۔بنگلہ دیش میں لاوا بہت دیر سے پک رہا تھا جس کی بنیادی وجہ اپوزیشن جماعتوں کے خلاف ناقابل یقین حد تک کی جانے والی سنگین کارروائیاں تھیں۔ ایک منجھی ہوئی سیاستدان ہونے کے باوجود حسینہ واجد اپنے دل و دماغ سے پاکستان کے خلاف نفرت کو نکال نہیں پائیں۔ 1971 میں جن جماعتوں نے متحدہ پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے کسی بھی حوالے سے کوئی کردار ادا کیا تھا ان کے ارکان کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ خصوصا جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایسے رہنما جن میں کچھ کئی بار وزیر بھی رہ چکے تھے کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ 1971 کے بعد بنگلہ دیش میں زیادہ تر عدم استحکام رہا۔ یہ 2009 سے لے اب تک صرف حسینہ واجد کا دور ہی تھا جس میں بڑے فیصلے اور اقدامات کرکے ملک کو ایک سمت دینے کی کوشش کی گئی۔ بنگلہ دیش میں سب سے پہلی بغاوت 1975 میں حسینہ واجد کے والد اور ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کیخلاف ہوئی تھی ، انہیں ان کی سرکاری اقامت گاہ پر اہل خانہ سمیت گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ اسی سال میں مزید دو اور بغاوتیں ہوئیں جن کے نتیجے میں نومبر میں جنرل ضیا الرحمن نے اقتدارسنبھال لیا تھا۔ 1981 میں جنرل ضیا الرحمن کو چٹاگانگ میں سرکاری گیسٹ ہاؤس کے اندر قتل کردیا تھا۔1982 میں جنرل ضیاالرحمن کے جانشین عبدالستار کو فوج نے جنرل محمد ارشاد کی فوجی بغاوت کے ذریعے نکال دیا تھا، جنرل ارشاد بعد میں صدربن گیا۔ 2007 میں آرمی چیف نے پھرایک بغاوت کی اور اس نے دوسالہ عبوری حکومت بنائی جس کے بعد 2009 میں شیخ حسینہ اقتدار میں آئیں۔ حسینہ واجد نے نہ صرف ملک کی معیشت کو پٹڑی پر چڑھایا بلکہ ملک کے لیے مستقل مصیبت بنے سمندری طوفانوں سے بچنے کے لیے ساحلی علاقوں میں مضبوط اور بلند پشتے بنا کر لوگوں کو محفوظ بنایا۔ ہر سال ہزاروں افراد اس طوفان کی نذر ہو جاتے تھے۔ حسینہ واجد نے اپنی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے ججوں ، جرنیلوں اور سرکاری افسروں کے خلاف بھی آہنی ہاتھ استعمال کیے۔ کوئی توقع نہیں کررہا تھا تقریبا ایک ماہ قبل کوٹہ سسٹم پر شروع ہونے والا احتجاج فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ بنگلہ دیشی آرمی چیف وقار الزماں نے طلبہ تحریک کے مطالبے پر وزیر اعظم حسینہ واجد کو استعفا دے کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ اب فوج ملک پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔ دوسری جانب احتجاجی طلبہ کے مطالبے پر نوبل انعام یافتہ معیشت دان ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری سیٹ اپ قائم کیا جارہا ہے ۔ آگے جو کچھ بھی ہوگا وہ بنگلہ دیشی فوج کے لیے امتحان ہے۔ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنا بنگالیوں کی سرشت ہے۔ فوج ان کے تمام مطالبات نہیں مانے گی۔ ایسے میں معیشت کیسے چلے گی، استحکام کیسے آئے گا ؟ انقلاب کا نتیجہ بہتری ہوگا یا ابتری ، اس مرحلے پر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ حالات پیچیدہ ہو چکے ہیں۔اب آتے ہیں ایران کی طرف ، نئے صدر کی تقریب حلف برداری کے لیے تہران آئے ہوئے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے فوجی علاقے میں ان کی رہائش گاہ پر شہید کرکے اسرائیل نے پاسداران انقلاب کے پلے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ثابت کردیا کہ پورے ایران میں کوئی بھی شخصیت یا تنصیب اس کی پہنچ سے دور نہیں۔ اس سے پہلے بھی اسرائیل ایران کی سرزمین پر ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ اور پاسداران انقلاب کے اہم کمانڈروں کو ہلاک کرچکا ہے۔ وقفے وقفے سے ہونے والی جھڑپیں ایک ایسا خطرناک کھیل ہوتا ہے جس میں اندازے کی چھوٹی سی غلطی سے بڑی لڑائی ہونے کا خطرہ رہتا ہے اور کھیل فریقین کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ چند سال قبل ایسی ہی ایک غلطی ایران نے امریکی ڈرون گرا کر اسکی زیادہ تشہیر کرکے کی، انہی دنوں سمندری حدود میں امریکی بحریہ کے چند اہلکاروں کوکچھ دیر کے لیے حراست میں لیا۔ امریکہ نے اپنی سبکی محسوس کی اور بدلہ لینے کے لیے جنرل قاسم سلمانی کو بغداد ائر پورٹ کے باہر میزائل کا نشانہ بنا ڈالا ، حالانکہ اس تمام عرصے میں عراق سے لے کر شام تک امریکہ اور ایران مشترکہ دشمنوں کے خلاف کبھی مل کر کبھی علیحدہ رہ کر لڑ رہے تھے۔ یمن کی جنگ میں بھی وہاں پہلے سے موجود امریکی فوجی اپنے اڈوںسے نکلتے وقت بڑی تعداد میں اسلحہ وہیں چھوڑ گئے۔ چھوٹی سی سمندری پٹی میں جدید ترین آلات اور انتہائی مہلک ہتھیاروں سے لیس موجود امریکی بحری بیڑے نے ایران سے یمن کے حوثیوں کو اسلحے کی ترسیل پر اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دوسرے عرب ممالک نے صورتحال کا ادراک کرکے جنگ سے نکلنے کو ترجیح دی۔ چین کو درمیان میں ڈال کر ایران سے تعلقات کو بہتر بنایا۔یقینا یہ صورتحال امریکہ کے لیے پسندیدہ نہیں تھی۔ امریکہ کی ہر ممکن کوشش رہی کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کھلی جنگ نہ ہو۔ ہانیہ کی شہادت کے بعد صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو پر جذباتی انداز میں تنقید کی ہے لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ایران کو اسرائیلی کارروائی کا جواب صرف چند میزائل چلا نہیں دینا بلکہ ایسا نقصان پہچانا ہے جس سے لگ سکے کہ واقعی بدلہ لیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہواتو ایران کے اندر ان قوتوں کو شہ ملے گی جو موجودہ سسٹم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے تحریکیں چلتی رہتی ہیں جن کو بزور طاقت کچل دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پردے کے معاملے میں احتجاج نے ایرانی نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایران کی قیادت نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن کی حالت میں ہے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات