جنوبی ایشیا میں ایک اور ملک میں جمہوریت، ایک دھاندلی زدہ منتخب وزیر اعظم کی ضد کے سبب دم توڑ گئی۔ ایک اور مملکت میں اختیارات ایک سرکاری ملازم کے ہاتھ میں آگئے۔
76 سالہ حسینہ واجد شیخ اپنی سپریم کورٹ کا فیصلہ مان لیتی۔ تو وہ آج بھی گانا بھابھن (عوام کا گھر) میں وزیراعظم کی حیثیت سے متمکن ہوتیں۔ جمہوریت صرف جنرلوں کے ہتھیار بردار ہاتھوں میں ہی دم نہیں توڑتی۔ وہ منتخب وزرائے اعظم کے ہاتھوں میں بھی آخری سانس لیتی ہے۔ جب وہ اسی عمل کو سبوتاژ کرتے ہیں۔ جس نے انہیں اقتدار دلایا ہوتا ہے۔
بہترین جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
بد ترین انتقام بد ترین جمہوریت بلکہ بد ترین حکمرانی ہے۔
جمہوریت تو ایک مثالی طرز حکومت ہے۔ اچھی حکمرانی کیلئے بھی ضروری ہے کہ طاقت کے تمام مراکز ایک دوسرے کے اختیارات کو تسلیم کریں۔5اگست سے ڈھاکا ضعیف مملکت کے مناظر پیش کررہا ہے۔ ابھی تو خوشیاں منائی جارہی ہیں کہ وزیر اعظم بھاگ گئی ۔ عوام جیت گئے۔ لیکن اس طرح سے حکومت کی تبدیلی کے جو بھیانک نتائج ہوتے ہیں وہ ہم پاکستانیوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔
بنگلہ دیش والوں کو ہی نہیں دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں کو دیکھنا ہوگا کہ بنگلہ دیش یا سابق مشرقی پاکستان میں حسینہ شیخ ناکام ہوئی ہیں یا ریاست ناکام ہوئی ہے۔
ہندوستان،پاکستان، بنگلہ دیش کو آزادی دلانے والی سیاسی جماعتیں اس وقت عوامی برہمی کا سامنا کر رہی ہیں۔ آل انڈیا کانگریس سالہا سال سے خفت اٹھانے کے بعد اب کسی بہتر حیثیت میں اپوزیشن پارٹی بنی ہے۔ پاکستان میں مادر جماعت آل انڈیا مسلم لیگ تو اب رہی نہیں ۔ باقی ماندہ پاکستان کی مسلم لیگ کا ایک دھڑا مسلم لیگ (ن) حکومت میں ہے۔ لیکن کیسی حکومت ہے کہ ہر شہری پناہ مانگ رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بنگلہ بندھو کی عوامی لیگ، جس نے آزادی کا سہرا اپنے سر باندھا، کیسے رسوا ہوئی ہے۔ اس بے بسی کے اسباب کیا ہیں۔ آزادی کا تحفظ نہ کرنا، آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرنا، جن عوام کی قیادت کا دعوی ہے ان کا ہی درد محسوس نہ کرنا۔ تینوں ملک کبھی ایک ملک تھے، برٹش انڈیا۔ انگریز سے آزادی کے بعد دو ہوئے پھر اپنوں سے آزادی جس میں انڈیا نے سازش کے تحت مشرقی پاکستان کے باغیوں کی مالی، فوجی، سیاسی مدد کی۔ اب بھارت پاکستان بنگلہ دیش۔ تینوں میں ملک اور قوم کے مفادات پر ذاتی مفادات۔ پارٹی مفادات اور اداروں کے مفادات غالب ہیں۔ تینوں جگہ بد ترین حکمرانی ہورہی ہے۔ خلقت چیخ رہی ہے۔ سڑکوں پر ہے۔
ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بنگلہ دیش میں بہت استحکام ہے۔ کیونکہ حسینہ واجد نے سیاستدانوں کو پارلیمنٹ تک، فوج کو بیرکوں تک، مولوی کو مسجد تک محدود کردیا ہے۔ ٹکے کی حیثیت بہت مضبوط ہوگئی ہے،برآمدات بڑھ گئی ہیں، گارمنٹ فیکٹریاں اپنے عروج پر ہیں، پاکستان کی فیکٹریاں بنگلہ دیش چلی گئی ہیں۔ مگر اچانک یہ کیا ہوگیا۔
سبق سیکھنے کو تو ہر تبدیلی سے سیکھے جاسکتے ہیں۔ مگر جب کوئی یہ سمجھتا ہو کہ مجھے سب پتہ ہے۔ ہمارے ہاں ایک حکمران پارٹی کے پاس گزشتہ 39 سال کا تجربہ ہے۔ ایک کے پاس اس سے بھی کہیں زیادہ سال کا۔ ایک ادارے کے پاس 1954 سے حکمرانی کا تجربہ ہے۔ اس تجربے سے تینوں نے کچھ سیکھا۔ نظر تو نہیں آتا۔ ایک تجربہ کار کا مشاہدہ تو یہ ہے کہ بعض لوگوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہوتی ہے۔ مگر وہ کام میٹرک سے ہی لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اس سے بھی آگے کا مرحلہ ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھے ہوں۔ آکسفورڈ سے لندن اسکول آف اکنامکس سے یا سینڈھرسٹ سے۔ کام پرائمری سے ہی لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو کشمکش اپریل 2022سے ہو رہی ہے۔ مگر بنگالی نوجوانوں نے تو چند ماہ میں فیصلہ کن لڑائی لڑی۔
کام تھے عشق میں بہت پر میر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
ابھی غبار چھٹنے کی دیر ہے۔ پھر معلوم ہوگا کہ اس تحریک کا مقصد یہی تھا جو ظاہر ہو رہا ہے۔ حسینہ شیخ واجد کے گزشتہ انتخابات بھی دھاندلی زدہ کہے گئے۔ مگر حالیہ انتخابات پر تو دوسرے ملکوں سے بھی الزامات عائد ہورہے تھے۔ 76سال کی ضعیفہ زنِ آہن بننے کی کوشش کررہی تھیں۔ عوامی لیگ کے وفاداروں کو سرکاری خزانے سے نواز رہی تھیں۔ انکے والد نے آزادی کے لڑاکوں Freedom Fighters کیلئے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ رکھا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لڑاکے کم ہوتے گئے۔ مگر کوٹہ بڑھتا گیا۔ اب حسینہ واجد شیخ یہ کوٹہ ان لڑاکوں کی تیسری نسل کو دے رہی تھی۔ جن کا آزادی یا جمہوری جدو جہد میں کوئی کردار نہیں تھا۔ اس طرح عام اہل نوجوانوں کا حق مارا جارہا تھا۔ کوٹہ سسٹم کی لڑائی اعلی عدالتوں میں جا پہنچی ۔ سپریم کورٹ نے ملازمتیں 93فی صد میرٹ پر، 5فی صد لڑاکوں کیلئے، 2فی صد معذوروں کیلئے مختص کیں مگر سفاک وزیر اعظم نہیں مانیں۔ تو برسوں سے پکنے والا لاوا پھٹ پڑا۔ دائیں بائیں بازو والے، عوامی لیگ سے ناراض نوجوان سب باہر نکل آئے۔ انہیں یقینا شہ بیرکوں سے بھی مل رہی ہوگئی۔ حسینہ شیخ کی انگلیاں حالات کی نبض پر نہیں تھیں۔ کوئی لیڈر جب وقت کے تیور نہ دیکھ سکے تو کمزور ہوتا جاتا ہے۔
یہی بہتر ہے، مسند چھوڑ دیں ہم
کہ لہجہ خلق کا بدلاہوا ہے
پارلیمانی نظام کا تقاضا تو یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم استعفی دے دیتیں۔ نئے انتخابات کا اعلان کرتیں۔
جہاں جہاں خلق کا لہجہ بدل رہا ہے۔ شہروں میں ہجوم اپنے جذبات کا برملا اظہار کررہے ہوں تو ان کی آنکھوں میں جھانکنا چاہئے۔ ان کی پیشانیوں کی چمک دیکھنا چاہئے۔ اپنے گریبان کی طرف بڑھتے ہاتھ دیکھنا چاہئیں۔
1975 میں جب شیخ مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کا قتل ہوا تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چاول سے بھرا ایک جہاز بنگلہ دیش کے عوام کو تحفے کے طور پر بھجوایا تھا۔ اب پاکستان کیلئے اچھا موقع ہے۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں سے اظہار یکجہتی کا حکومت کو کوئی ایسا قدم اٹھانا چاہئے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ حسینہ واجد شیخ کو اگر بنگلہ دیش سے محبت تھی تو اپنا وطن کیوں چھوڑا۔ فوج کو اگر حسینہ واجد شیخ کی حکمرانی ملک دشمن لگ رہی تھی تو اس نے انہیں ملک سے جانے کیوں دیا۔
تاریخ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے بزرگ رہنماؤں کے ساتھ حسینہ شیخ نے جس سفاکی کا مظاہرہ کیا تھا اس عمل کی مکافات تو ایک دن ہونا تھی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش اب سیاسی اور اخلاقی طور پر سرخرو ہوئی ہے۔ دیکھیں بنگلہ دیش کے عوام انہیں حکومت بنانے کا اختیار دیتے ہیں یا نہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ