شیخ مجیب کی بیٹی اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش چھوڑ کر بھارت فرار ہوگئی ہیں۔ وہ بلا شبہ مضبوط وزیر اعظم تھیں۔ جنھوں نے اپنے تمام سیاسی حریفوں کو سیاست سے آؤٹ کر دیا تھا۔ جنوری میں بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات کو عالمی سطح پر بھی کوئی خاص قبولیت نہیں ملی تھی۔ لیکن انھوں نے سب سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے باہر رکھ کو خود ہی انتخاب لڑ کر خود ہی جیت گئی تھیں۔ وہ بلا شبہ بنگلہ دیش میں ایک سول آمریت قائم کر چکی تھیں۔
شیخ حسینہ واجد کے خلاف عوامی احتجاج کی قیادت کسی سیاسی جماعت اورکسی سیاسی لیڈر نہیں کی۔ کوئی بھی سیاسی لیڈر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے شیخ حسینہ واجد کو نکالا ہے۔ یہ احتجاج وہاں کے نوجوانوں نے شروع کیا او ر آخر تک وہ ہی اس احتجاج کی قیادت کرتے رہے۔ بنگلہ دیش کے نوجوان وہاں پر شیخ حسینہ واجد کی سیاسی جماعت کو سرکاری نوکریوں میں حاصل کوٹہ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں ایک قانون بنایا گیا کہ جنھوں نے بنگلہ دیش کی آزادی میں کردار ادا کیا ہے، ان کو اور ان کے بچوں کو نوکریوں میں تیس فیصد کوٹہ حاصل ہوگا۔ صاف ظاہر ہے کہ شیخ مجیب کی سیاسی جماعت کے لیٹر پر آپ خود کو اس تیس فیصد کوٹہ کا اہل بنا لیتے تھے۔ بنگلہ دیش کا نوجوان اس کوٹے کے خلاف تھا۔ اور وہ میرٹ پر نوکریوں کی تقسیم کے حق میں تحریک چلا رہا تھا۔ وہ کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لیے تحریک چلا رہا تھا۔ وہ کسی خاص سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کے لیے یہ تحریک نہیں چلا رہا تھا۔ وہ اپنے مستقبل اور میرٹ کے لیے یہ تحریک چلا رہا تھا۔
پاکستان میں ہمارے تحریک انصاف کے دوست آجکل کسی بھی ملک میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں اگر حکومت بدل جائے۔ کوئی حکمران اقتدار کھو دے تو یہ فوری طور پر کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اب پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ پہلے سری لنکا میں عوامی احتجاج اور عوام کے مارچ کے نتیجے میں حکومت بھاگ گئی تو ہمارے تحریک انصاف کے دوستوں نے رٹ لگا دی کہ پاکستان بھی سری لنکا بن جائے گا۔ روز آوازیں آنا شروع ہو گئیں کہ بس آج نہیں کل پاکستان بھی سری لنکا بن جائے گا۔ یہاں بھی لوگ اسی طرح مارچ کریں گے اور حکمرانوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔ کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ کہ سری لنکا میں کیا عوامل تھے ۔ بس شورشروع کر دیا کہ پاکستان بھی سری لنکا بن جائے گا۔
سری لنکا میں بھی لوگ کسی سیاسی جماعت اور کسی سیاسی لیڈر کی کال پر نہیں نکلے تھے۔ وہاں پٹرول ختم ہو گیا تھا۔ لوگ اپنی گاڑیاں موٹر سائیکل چلانے سے قاصر تھے۔ ملک میں بجلی نہیں تھی۔ ڈیفالٹ کی وجہ سے اسپتالوں میں دوائیاں ختم ہو گئی تھیں۔روزگار ختم ہو گیا تھا۔ ایسے میں جب زندگی گزارنی مشکل ہو گئی تھی تو لوگ نکلے اور انھوں نے ایوان صدر کا قبضہ کیا۔ پاکستان میں تو ایسی کوئی صورتحال نہیں تھی۔ لیکن تحریک انصاف کے دوستوں کی خواہش تھی کہ پاکستان بھی سری لنکا بن جائے۔ اس لیے روز سری لنکا کی مثالیں دی جاتی تھیں کہ پاکستان بھی سری لنکا بن جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اب کچھ ماہ سے ہمارے تحریک انصاف کے دوستوں کا شیخ مجیب آئیڈیل ہو گیا تھا۔ شیخ مجیب کی وڈیوز لگائی جاتی تھیں۔ انھیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن آج ہمارے وہ دوست اور وہ سیاسی جماعت بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کا حال دیکھ لیں۔ لوگ کس طرح شیخ مجیب کے ساتھ نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ سمجھیں یہ نفرت کسی ایک سیاسی جماعت کی نہیں ہے۔ یہ عوام کی نفرت ہے۔ بنگلہ دیش کی عوام اور بنگلہ دیش کا نوجوان شیخ مجیب سے نفرت کر رہا ہے۔ وہاں آج بھی پاکستان کے حق میں نعرے لگ رہے ہیں۔ وہاں آج بھی پاکستان کے لیے محبت نظر آرہی ہے۔
کل تک شیخ مجیب کو ہیرو کہنے والے تحریک انصاف کے دوست اب بنگلہ دیشی عوام کے احتجاج اور شیخ حسینہ واجد کے فرار پر یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دیکھیں عوامی احتجاج کے سامنے کوئی نہیں کھڑا ہو سکتا۔ لیکن افسوس ہمارے یہ دوست نہ کل سری لنکا میں عوامی احتجاج کے عوامل کو سمجھ سکے اور نہ ہی یہ آج بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج کے عوامل کو سمجھ سکے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس احتجاج کے بعد ملک کا نظام فوج نے سنبھال لیا۔ اور عوام نے فوج کو خوش آمدید کہا ہے۔ پھر ہمارے تحریک انصاف کے دوست یہ بھی لوگوں کو بتائیں کہ ایسے عوامی احتجاج کے بعد فوج ملک کا کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔ بات میرے عزیز ہم وطنو سے شروع ہوتی ہے اور وہیں پر ختم ہوجاتی ہے۔لوگ بھی فوج کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اگر خدانخواستہ ہمارے تحریک انصاف کے دوستوں کی خواہش کے مطابق حالات بنگلہ دیش جیسے ہو گئے تو پھر بھی فوج ہی ملک کا کنٹرول سنبھالے گی۔ انھیں کیا ملے گا۔ بلکہ جو حاصل ہے وہ بھی چلا جائے گا۔ بنگلہ دیش میں فوج نے کنٹرول سنبھالتے ہی شیخ حسینہ واجد کے سیاسی مخالفین کو ریلیف دے دیا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے دفاتر کھول دیے گئے ہیں۔ خالدہ ضیا کو رہاکر دیا گیا۔ لیکن کیا تحریک انصاف کے دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان میں جب فوج ملک کا کنٹرول سنبھالے گی تو انھیں بھی ریلیف مل جائے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ نو مئی کے واقعات کا ٹرائل شروع ہوگا اور جلد فیصلے ہوں گے۔
بنگلہ دیش ہو جا سری لنکا عوامی احتجاج کے لیے وہاں نہ تو حکومت سے اجازت مانگی گئی اور نہ ہی احتجاج کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے۔ عوامی احتجاج کسی اجازت کا محتاج نہیں ہوتا۔ عوامی احتجاج کے نتائج ایک دن میں نہیں آتے۔ بنگلہ دیش میں تین ماہ لگ گئے ہیں۔ سیکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ آخری دن بھی 135ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ گیار ہ ہزار سے زائد لوگ گرفتار ہیں۔ ہزاروں زخمی ہیں۔ لیکن احتجاج رکا نہیں۔ تحریک انصاف کے دوست تو ایک نو مئی کر کے ہی توبہ کر گئے۔ دوسرے دن ایک بندہ بھی نہیں نکلا۔ بلکہ اس کے بعد آج تک نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ ایسے تو عوامی احتجاج کامیاب نہیں ہوتے۔
تحریک انصاف کے دوستوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بیرون ملک مقیم بنگلہ دیشیوں اور سری لنکن نے وہاں آنے والی تبدیلیوں میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ملک سے باہر بیٹھے لوگ ملک کے اندر تبدیلی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے لیے بیرون ملک کوئی تحریک نہیں چلی ۔ جو بھی ہوا ملک کے اندر ہوا ہے۔ جب کہ تحریک انصاف کے دوستوں کا زیادہ انحصار بیرون ملک مقیم لوگوں پر ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کی پالیسی چلتی ہے جو مقامی حالات سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ پھر مقبولیت کا دعوی تو ہے لیکن سڑکوں پر نہیں ہے۔ سڑکیں گرم نہیں کی جا سکتی ہیں۔ تحریک انصاف ایک لمبی عوامی تحریک نہ کل چلا سکتی تھی اور نہ ہی آج چلانے کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے وہ دوسرے ممالک میں عوامی احتجاج دیکھ کر خیالی پلاو تو پکا سکتے ہیں۔ لیکن شاید خود عوامی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس