مشفق مکرم عرفان صدیقی نے حالیہ تحریر کا آغاز ’چوں کفر از کعبہ برخیزد…‘ کے فارسی مصرعے سے کیا ہے۔ گویا اردو کالم میں فارسی شعر کے حوالے کی روایت کو تازہ سند مل گئی۔ درویش تو بزرگوں کے اتباع میں عافیت ڈھونڈتا ہے۔ طالب علم کو اپنی شکستہ بیانی پر غالبؔ جیسا غرہ نہیں کہ کسی پری وش کے ذکر سے راز داں کے رقیب بننے کا اندیشہ لاحق ہو۔ سو، میں مولانا روم کے ایک شعر کی اوٹ لیتا ہوں۔ خوشتر آں باشد کہ سرّ دلبراں / گفتہ آید در حدیثِ دیگراں۔ (بہتر یہی ہے کہ راز ہائے دل کا اشارہ دوسروں کی حکایت کے بیان میں لپیٹ کر ادا ہو جائے۔) ٹھیک اسی طرح جیسے بنگلادیش میں انقلاب کی خبر پر پاکستان کے مخصوص عناصر کی بے اختیار خوشی ان کی درپردہ خواہشات بے نقاب کر رہی ہے۔ بنگلا دیش کبھی پاکستان کا حصہ تھا۔ اب ہم سے 2200 کلومیٹر دور ایک خود مختار ملک ہے۔ ڈھاکہ کے مردے ڈھاکہ میں گڑیں گے۔ ہمیں اپنے تجربات سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ 29 اکتوبر 1958 ء کو محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان سے ملاقات کر کے مارشل لا کا خیر مقدم کیا تھا۔ چھ برس بعد مادر ملت کو ایوب خان کے مقابل صدارتی انتخاب میں معلوم ہو گیا کہ آمریت کے خوشنما نقاب میں چھپے عفریت کی حقیقت کیا ہوتی ہے۔ ہم نے 26مارچ 1971کی صبح کراچی ائیر پورٹ پر کہا تھا ’خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا‘ جولائی 1977ء میں بھی ہمارے اہل دانش سجدہ ہائے تشکر بجا لائے تھے۔ ٹھیک چاربرس بعد سب ایم آر ڈی کے تنبو تلے سربزانو بیٹھے تھے۔ 18 اکتوبر 1999ء کو بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف کی بغاوت کو نواز شریف سے نجات قرار دیا تھا۔ مئی 2006ء میں بینظیر بھٹو کو نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا پڑے۔ سادہ سبق یہ ہے کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت پر قابل ترجیح ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں تین معاملات آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے پارلیمنٹ کی مخصوص نشستوں کے بارے میں اپنے اختلافی نوٹ پرفیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں اہم قانونی نکات بیان کیے گئے ہیں۔ معزز جج صاحبان نے لکھا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع ہی نہیں کیا۔ سنی اتحاد کونسل میں مقررہ مدت کے دوران شامل ہونے والے آزاد ارکان کو تحریک انصاف کے ارکان قرار دینا فلور کراسنگ کی اجازت دینے کے مترادف ہو گا۔ عدالت کسی ریاستی ادارے کو ماورائے آئین حکم نہیں دے سکتی۔ اس دوران قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ قانون کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ گویا 12جولائی کے فیصلے پر عدالت عظمیٰ سے صادر ہونے والا اکثریتی فیصلہ ہوا میں معلق ہو گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو کھلے عام قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ ہوا میں لہرانے والے ارکان قومی اسمبلی اتنی اخلاقی جرأت نہیں رکھتے کہ چیف جسٹس کے تحفظ کو خطرے میں ڈالنے والے مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف ایک قرارداد منظور کر سکیں۔ یہ معاملہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ طرہ یہ کہ قومی ذرائع ابلاغ میں کچھ برخود غلط صاحبان تقویٰ صاف لفظوں میں سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کی تجویز دے رہے ہیں۔ ان کے ارشادات سے باور ہوتا ہے کہ ان بزرجمہروں نے دستور پاکستان کا متن بھی غور سے نہیں پڑھا۔ یہ حضرات غالباً دستور اور قانون کا فرق تک نہیں سمجھتے۔ سپریم کورٹ نے متعلقہ معاملے میں قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے اور مذکورہ فیصلے کا کسی آئینی شق سے کوئی تعلق نہیں۔ شپرہ چشمی کی حد ہے کہ ایک طرف آئین میں من مانے اضافے کیے جاتے ہیں اور دوسری طرف مذہبی اشتعال کی آڑ لے کراپنے مذمو م مقاصد کے لیے محترم چیف جسٹس کو متنازع بنایا جاتا ہے۔ اس دوران ایک صاحب دانش نے ’نیشنل یونٹی کی حکومت‘ کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے۔ تاہم وہ اس ضمن میں کسی آئینی جواز کا حوالہ دینے سے محترز ہیں۔ کیا سادہ دلی ہے کہ دو برس کے لیے پارلیمانی نظام حکومت کے تمام اصول و ضوابط معطل کر کے ’اچھے بچوں ‘کی ایک حکومت قائم کر دی جائے۔ اس حکومت میں نہ کوئی حزب اختلاف ہو اور نہ قائد ایوان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی زحمت دی جائے۔ ’مقتدرہ بھی آن بورڈ ہو‘ ۔ گویا مقتدرہ کی ماورائے آئین اصطلاح کو بندوبست حکومت کا نصابی حصہ قرار دے دیا جائے۔ برادر بزرگ نے ایک مرد دانا دریافت کیے ہیں جو چاہتے ہیں کہ موعودہ حکومت میں ’پروفیشنل وزیر ‘ہوں۔ یہ سنجیدہ معاملہ ہے ورنہ درویش نے کینیڈا کے ایئرپورٹ پر ایک پاکستانی شاعرہ کے انگریزی زبان پر’پروفیشنل‘ عبور کا قصہ سنایا ہوتا۔ کچھ مزید جواہر ریزے یہ ہیں کہ’ یہ ساری پارٹیاں مل کر ملک کو سیاسی اور معاشی پٹری پر چڑھائیں ۔ بعد ازاں اپنی اپنی سیاست کر لیں‘۔نیز یہ کہ ’سیاسی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل اتحادی قومی حکومت مل کر ملک کو دلدل سے نکالے گی‘۔ خدا معلوم یہ ’سیاسی ٹیکنوکریٹ‘ کس بلا کا نام ہے؟سرکار والا تبار ، سیاست کا جھنجھٹ کسی ملک کو دلدل سے نکال کر سیاسی اور معاشی پٹری پر چڑھانے کے لیے ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر سیاسی عمل کو معطل کر کے سیاست ، معیشت اور تمدن کے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو پھر دو برس بعد سیاسی عمل کی طرف لوٹنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم تو وہ مردم گزیدہ ہیں جنہیں نوے دن میں معاملات ٹھیک کرنے کا جھانسہ دے کے 133 ماہ تک ہوا میں معلق رکھا گیا تھا۔ اور یہ ناٹک تو چند ماہ قبل دیکھا کہ دو صوبوں میں نگران حکومتیں ایک برس تک مسلط رہیں۔ سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی تو وفاق میں بھی نگران حکومت چین کی بانسر ی بجا رہی تھی۔ برادر بزرگ نے اپنے ارشادات عالیہ کے لیے ’مرد دانا ‘کی حدیث دیگراں کی اوٹ لی ہے۔ ہم افتادگان خاک کو کسی مرد دانا کے گوش سماعت کی سہولت دستیاب نہیں۔ ہماری زبوں حالی البتہ سید عابد علی عابد نے بیان کر رکھی ہے۔
جو دلبری کا یہ عالم رہا تو اے شوخی
کوئی کرشمہ نہ چھوڑے گی تو حیا کے لیے
بشکریہ روزنامہ جنگ