8 اپریل 1857 کو منگل پانڈے کی پھانسی کے بعد بغاوت شروع ہو گئی پانڈے 34 بنگال انفنٹری رجمنٹ کا سپاہی تھا یونٹ نے 1856 میں چربی والی گولیوں کے استعمال سے انکار کیا تھا اس زمانے میں توڑے دار بندوقیں ہوتی تھیں جوانوں کو کارتوس دیے جاتے تھے جن میں بارود ہوتا تھا جوان دانتوں سے کارتوس کا سر توڑ کر بارود بندوق کے پائپ میں بھرتے تھے لوہے کی سلاخ سے بارود کو پریس کرتے تھے پھر اس میں لوہے کی گولی پھنساتے تھے اور آخر میں نشانہ لے کر فائر کر دیتے تھے بارود پھٹتا تھا اور اس کے پریشر سے لوہے کی گولی نکل کر ہدف کو اڑا دیتی تھی یہ بندوقیں اور ان کے کارتوس بحری جہازوں پر برطانیہ سے آتے تھے۔
کارتوسوں کو عموما چھ ماہ سمندری جہازوں میں رہنا پڑتا تھا جس سے بارود گیلا ہو جاتا تھا چناں چہ کارتوس میکنگ کمپنیاں ان پر پلاسٹک کی جھلی چڑھا دیتی تھیں یہ نئی ٹیکنالوجی تھی اور ہندوستانی ہزاروں سال سے نئی ٹیکنالوجیز کے خلاف تھے لہذا کارتوس جب 34بنگال رجمنٹ تک پہنچے تو کسی نے مسلمان سپاہیوں میں یہ بات پھیلا دی ان پر سور کی چربی چڑھی ہوئی ہے جب کہ ہندو سپاہیوں کو بتایا گیا آپ جس چیز کو دانتوں سے کھینچ کر نکالتے ہیں وہ گا ماتا کی چربی ہیاس افواہ کا یہ نتیجہ نکلا مسلمان اور ہندو دونوں سپاہیوں نے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا انگریز عموما ایسے معاملات خوش اسلوبی سے سنبھال لیتے تھے لیکن اس زمانے میں ایک خردماغ جنرل کلکتہ آ گیا تھا اس نے باغی سپاہیوں کے کورٹ مارشل کا حکم دے دیا۔
اس کے نتیجے میں گورے اور مقامی سپاہیوں کے درمیان تصادم ہو گیا جس میں گورے افسر مارے گئے اور یوں بغاوت پھیل گئی بغاوت کا آغازکیوں کہ منگل پانڈے نے کیا تھا لہذا گوروں نے اسے گرفتار کر کے 8 اپریل 1857 کو پھانسی دے دی یہ خبر باہر نکلی تو بغاوت میں شدت آ گئی اور سپاہیوں نے گوروں کے اسلحہ ڈپو لوٹ کر انھیں قتل کرنا شروع کر دیا سپاہی گوروں کو مارتے دھاڑتے ہوئے دہلی پہنچ گئے اس وقت بہادر شاہ ظفر تخت نشین تھا اس کی عمر اس وقت 82 سال تھی اور وہ ضعیف بھی تھا بیمار بھی اور اسے تلوار کو ہاتھ لگائے ہوئے بھی 30 سال گزر چکے تھے وہ گھوڑے یا ہاتھی پر بیٹھنے کے قابل بھی نہیں تھا بہادر شاہ ظفر کی کل سلطنت دہلی تک محدود تھی وہ اس سلطنت کے اخراجات بھی پشتینی زیورات جواہرات اور سونے چاندی کے برتن بیچ کر پورے کرتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ بغاوت کو حقیقی آزادی سمجھ رہا تھا چناں چہ جب باغی سپاہی دربار میں پہنچے تو بادشاہ جنگ کے لیے تیار ہو گیا اس فیصلے کے بعد ایک نیا بحران پیدا ہو گیا۔
معلوم ہوا مغل خاندان کے کسی ایک شہزادے کو تلوار چلانی نہیں آتی شہزادے صرف تین کاموں کے ایکسپرٹ تھے کبوتر اڑانا مشاعرے پڑھنا اور مجرے سننا بہادر شاہ ظفر کے پاس فوج تھی مگروہ فوج صرف ڈرم بجا سکتی تھی یا بادشاہ کو سلیوٹ کر سکتی تھی اسے لڑنا بالکل نہیں آتا تھا سپاہیوں نے 20 سال سے تلوار بازی کی پریکٹس تک نہیں کی تھی چناں چہ پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ بادشاہ کو سپورٹ دے کر ہاتھی پر بٹھایا گیا لیکن وہ لال قلعہ کی ڈیوڑھی میںہی ہاتھی کی پیٹھ پر ڈھیر ہو گیا شہزادے گھوڑوں پر سوار تھے انھوں نے جرنیلوں کے لباس بھی پہن رکھے تھے اور ان کے ہاتھوں میں امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر کی تلواریں بھی تھیں لیکن وہ گوروں کی فوج کے پہلے ہلے کا سامنا نہ کر سکیباغی سپاہی لڑتے رہے وہ حقیقی آزادی کے لیے مرتے بھی رہے مگر مغل شہزادے پسپا ہوتے رہے نتیجتا ہزاروں لوگ مارے گئے مغل سلطنت بھی ختم ہو گئی اور ہندوستان بھی پکے ہوئے پھل کی طرح انگریز کی جھولی میں گر گیا۔
اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے تیمور کی نسل 1857میں لڑنے کے قابل کیوں نہیں رہی تھی؟ اس کی وجہ بہت دل چسپ تھی انگریز 1608 میں انڈیا آئے تھے یہ سورت شہر کے ذریعے ہندوستان میں داخل ہوئے تجارتی کوٹھیاں بنائیں اور آہستہ آہستہ پورا بنگال نگل گئے انگریز نے اپنی پرائیویٹ آرمی بھی بنالی تھی اور یہ انڈیا کی پہلی آرگنائزڈ آرمی تھی بہادر شاہ ظفر 1837 میں بادشاہ بنا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے پیش کش کی ہم آپ کے خادم یہاں موجود ہیں ہم آپ کی حفاظت کریں گے آپ کو اپنی فوج پالنے کی کوئی ضرورت نہیں بہادر شاہ ظفر کو یہ آفر اچھی لگی مغل بادشاہ فوجی بغاوتوں سے بھی تنگ تھے اور فوج کے اخراجات بھی زیادہ تھے چناں چہ بادشاہ نے وہ آفر قبول کر لی جس کے بعد کمپنی نے اس بندوبست کی ایک شرط رکھ دی۔
انگریز کا کہنا تھا بادشاہ شاہی خاندان پر عسکری تربیت (ملٹری ٹریننگ) پر پابندی لگا دیں بادشاہ نے وجہ پوچھی تو انھیں بتایا گیا مغل سلطنت میں ہمیشہ اندر سے بغاوت ہوتی ہے اگر شہزادے ملٹری ٹریننگ لیں گے تو ان میں سے کوئی نہ کوئی کسی وقت بغاوت کر دے گا اور اس کے نتیجے میں آپ کا تخت چلا جائے گادوسرا ہمیں مغل بادشاہ کو بچانے کے لیے مغل شہزادوں سے لڑنا پڑے گا اور یہ تیموری خاندان کی تذلیل ہے.
بادشاہ کو یہ بات بھی لاجیکل لگی اور یوں شہزادوں پر ملٹری ٹریننگ بین کر دی گئی جس کے بعد شہزادوں کے پاس کبوتر بازی مجروں اور مشاعروں کی صنعت بچ گئی اور وہ ان میں جت گئے دوسری طرف کمپنی کی پرائیویٹ آرمی کے سائز ٹیکنالوجی اور ٹریننگ میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ 1857آ گیا اور بادشاہ سے لے کر ولی عہد تک کسی کو تلوار بازی اور گھڑ سواری نہیں آتی تھی اور یوں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت دنوں میں ڈھیر ہو گئی اب یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے بہادر شاہ ظفر نے اتنی بڑی غلطی کیوں کی تھی؟ ہم اسے ماڈرن دور میں وژن کی کمی کہہ سکتے ہیں۔
وژن کا تقاضا تھا بادشاہ انگریز کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کو ذہن میں رکھ کر مغل فوج پر سرمایہ کاری کرتا چھانیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا فوج کی تعداد بڑھاتا اور شہزادوں کی پرورش محلات کے بجائے چھانیوں میں کرتا وہ بے شک دن کے ایک حصے میں ابراہیم ذوق اور اسداللہ غالب کی لڑائی کو انجوائے کرتا مگر اس کے ساتھ ساتھ تلوار بازی اور گھڑ سواری کی مشق بھی کرتا رہتا یورپ میں رائفل تلوار کی جگہ لے چکی تھی.
بادشاہ دہلی میں رائفلوں کے کارخانے لگواتا جدید بارود خانے بنواتا اور فوج کو نشانے بازی کی ٹریننگ دلاتا اس سے یقینا 1857میں تاریخ بدل جاتی اور انگریز ہندوستان سے فرار ہونے پر مجبور ہو جاتا لیکن بہادر شاہ ظفر کیوں کہ وژن کی نعمت سے محروم تھا لہذا وہ یہ اندازہ ہی نہیں کر سکا ہندوستان جیسے بڑے ملک کے لیے بڑی فوج اور اورنگ زیب جیسے سپہ سالار ضروری ہوتے ہیں اور اگر بادشاہ اور اس کی اولاد کا زیادہ وقت کبوتروں شاعروں اور طوائفوں کے ساتھ گزرے گا تو پھر سلطنت نہیں بچ سکے گی اور آخر میں یہی ہوا مغل سلطنت ختم ہو گئی اور پیچھے بہادر شاہ ظفر کے بے چارگی اور حسرت میں ڈوبے ہوئے چند اشعار رہ گئے۔
ہم بھی غلطی سے بہادر شاہ ظفر جیسی غلطی کر بیٹھے ہیں ہم محدود وسائل کے باوجود تاریخ کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بن بیٹھے ہیں یہ بظاہر بڑی اچیومنٹ ہے ایک ایسا ملک جو آج تک لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکا جو اپنی کل آبادی کا تخمینہ نہیں لگا سکا اور جو 75 برسوں میں ایک بھی فیئر فری اینڈ ٹرانسپیرنٹ الیکشن نہیں کرا سکا وہ صرف 500 ملین ڈالر لگا کر ایٹمی طاقت بن گیا لیکن یہ اچیومنٹ کے ساتھ ساتھ ہماری غلطی بھی تھی ہم ایٹمی طاقت بنتے بنتے یہ بھول گئے تھے ایٹم بم بنانا اتنا مشکل نہیں جتنا اسے سنبھالنا اور بچانا مشکل ہوتا ہے اور بچانے اور سنبھالنے کے لیے مالیاتی وسائل چاہییں چین کی ایٹمی طاقت کو کوئی خطرہ نہیں کیوں؟ کیوں کہ 34ٹریلین ڈالر کی اکانومی اس کے پیچھے کھڑی ہے۔
امریکا روس برطانیہ فرانساسرائیل اور بھارت کو بھی کوئی خطرہ نہیں کیوں؟ کیوں کہ ان کے پیچھے بھی کھربوں ڈالرز کی اکانومیز موجود ہیں جب کہ ہماری صورت حال یہ ہے ہماری ایکسپورٹس 30بلین ڈالرز ہیں ہم 27بلین ڈالرز فارن ریمیٹنس سے حاصل کر لیتے ہیں اور ہماری امپورٹس 80بلین ڈالرز ہیں ہمارے سرکاری اخراجات بھی ہماری اوقات سے زیادہ ہیں اور ہم نے چوٹ کے اوپر ایک اور چوٹ قرضوں کی شکل میں بھی مار لی ہم130 بلین ڈالر کے مقروض ہیں اور ان قرضوں کا سود اور قسطیں ہماری کمائی کا 85 فیصد ہو چکی ہیں یہ معاملہ صرف یہاں نہیں رکا ہم پٹرول گیس اور بجلی کے معاملے میں بھی دوسروں کے محتاج ہیں اور ہم نے اس بجلی گیس اور پٹرول کا سوئچ بھی دوسروں کے ہاتھ میں دے دیا ہے اور یہ سارے بوجھ مل کر ہماری گردن توڑ رہے ہیں۔
ہمیں چاہیے تھا ہم اس نازک صورت حال کو سمجھ جاتے لیکن آپ ہمارا کمال دیکھیے ہم نے اس کے ساتھ ساتھ22 کروڑ پاگل لوگ بھی اکٹھے کر لیے ہیں اور یہ روز دھرنے دے کر پٹرول گیس اور بجلی کا سوئچ بند کرانا چاہتے ہیں یہ ان لوگوں کو دہلی بھی لانا چاہتے ہیں جو کسی مصلحت یا خوف کی وجہ سے کلکتہ میں بیٹھے ہیں اور یہ سارا کام کون کر رہے ہیں؟ وہ کر رہے ہیں جو مغل شہزادوں کی طرح گھوڑے پر بیٹھ سکتے ہیں اور نہ تلوار اٹھا سکتے ہیں اور اب آخری سوال یہ ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو بہادر شاہ ظفر کا نکلا تھا لال قلعے یعنی ایٹم بم پرقبضہ ہو جائے گا دس پندرہ بیس لاکھ لوگ مارے جائیں گے اور آخر میں حقیقی آزادی کا کتبہ بچ جائے گا اور اس کتبے کے ساتھ ایک شخص اپنا سر ٹکا کر بیٹھا ہو گا اور وہ شخص کون ہو گا وہ یقینا بہادر شاہ ظفر ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس