پیر کی صبح جو کالم چھپا ہے اسے اتوار کے روز بستر سے اٹھنے کے بعد لکھا تھا۔ دفتر بھجوادیا تو اسلام آباد کو لاہور سے ملاتے موٹروے پر سفر کے لئے روانہ ہوگیا۔ جس تقریب میں شرکت لازمی تھی وہاں تک پہنچنے کے لئے مگر موٹروے سے اتر کر بھی مزید تین گھنٹے درکار تھے۔قصہ مختصر سات گھنٹوں میں سفر ختم ہوا تو جسم توانائی سے کامل محروم ہوچکا تھا۔ نہایت ڈھٹائی سے اگرچہ ایک مہمان خانے میں بیٹھارہا۔ وہاں دس کے قریب دیگر افراد بھی موجود تھے۔ ان کی اکثریت کاروباری افراد پر مشتمل تھی اور وہ اپنے اپنے شعبوں میں بہت کامیاب اور چند اعتبار سے قابلِ رشک شمار ہوتے ہیں۔غالبا ایک طویل وقفے کے بعد انہیں روزمرہ کی مصروفیات بھلاکر ایک دوسرے سے بے تکلفانہ گپ شپ لگانے کا موقعہ میسر ہوا تھا۔ میں کونے میں رکھے ایک آرام دہ صوفے پر تقریبا نیم دراز ہوا ان کی گفتگو توجہ سے سنتا رہا۔
بطور صحافی ہفتے کی شام سے ریگولر اور سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالتے ہوئے مجھے قوی یقین تھا کہ سپریم کورٹ کے دو عزت مآب ججوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستوں کے بارے میں اکثریتی رائے کے خلاف جو فیصلہ یا اختلافی خیالات لکھے ہیں اس نے فقط میڈیا ہی کو نہیں بلکہ سیاست میں دلچسپی لینے والے پاکستانیوں کی خاطر خواہ تعداد کو اگر پریشان نہیں تو حیران ضرورکردیا ہوگا۔ مذکورہ گماں کے ساتھ مجھے توقع تھی کہ اتوار کے روز اپنے گھروں سے دور بے تکلف دوستوں کے ہمراہ بیٹھے کاروباری افراد بھی اس اختلافی نوٹ کے مضمرات کو سنجیدگی سے زیر بحث لائیں گے جو اکثریتی رائے سے اتفاق نہ کرنے والے سپریم کورٹ کے دو معزز جج عوام کے روبرو لے آئے ہیں۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ کاروباری دوستوں کی ایک گھنٹے سے زیادہ عرصے تک جاری رہی جو گفتگو میں نے سنی اس کے دوران ایک باربھی مذکورہ اختلافی نوٹ کا ذکر نہیں ہوا۔ اس کے مضمرات کے بارے میں قیاس آرائی تو بہت دور کی بات ہے۔ پیر کی صبح چھپا یہ کالم جن مہربان قارئین نے پڑھا ہے دریافت کرچکے ہوں گے کہ ان دنوں میں دورِ حاضر کی طرزِ صحافت سے بوکھلائے ہوئے خود سے بے تحاشہ سوالات کررہا ہوں۔ ذہن میں مسلسل جمع ہوتے سوالات نے یہ سوچنے کو بھی مجبور کردیا ہے کہ اندھی نفرت وعقیدت میں خوفناک حد تک تقسیم ہوئے معاشرے میں دل کی بات برملا بیان کردینے کی گنجائش باقی رہ بھی گئی ہے یا نہیں۔ اگر گنجائش باقی نہیں رہی تو اس کالم کا عنوان برملا برقرار رکھتے ہوئے منافقت کیوں برتی جائے۔ اس پہلو پر غور کرنے والے چند متبادل بھی ذہن میں آئے۔ ان میں سے ایک بھی لیکن یک لفظی نہیں تھا۔ یہ خیال دماغ میں اٹک کررہ گیا ہے کہ حقائق کو برملا بیان کرنے کی قوت سے محروم ہوجانے کے بعد میں ان دنوں پچھتاوے کا موسم بھگت رہا ہوں۔ شاید غم جہاں کا حساب کرتے ہوئے اکثر لکھنے والے عمر کے آخری حصے میں ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ شکست خوردگی نے اگر دل ودماغ کو واقعتا جکڑ رکھا ہے تو اس کالم کا عنوان جرم ضعیفی کی سزا کے دوران لکھا روزنامچہ ہونا چاہیے۔ آٹھ لفظوں پر مشتمل عنوان مگر اخباری کالم کا عنوان ہونہیں سکتا۔ کسی ایک کالم کی ہیڈ لائن یا سرخی البتہ ہوسکتی ہے۔ فقط ایک خیال یہ بھی آیا کہ اگر اس کالم کو برملا کے بجائے خجالت کا نام دیا جائے تو شاید ایک حرفی عنوان ڈھونڈتے ہوئے قارئین ہذیان کے عالم میں بیان ہوئی باتوں کو تناظر میں رکھ کر برداشت کرسکتے ہیں۔
اصل موضوع سے ایک بار پھر مگر بھٹک گیا ہوں۔ آغاز میں بتایا تھا کہ اسلام آباد چھوڑتے ہوئے مجھے کامل یقین تھا کہ فقط میڈیا ہی نہیں بلکہ سیاست میں سرسری دلچسپی لینے والے پاکستانی بھی سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کی رائے کے خلاف ان ہی کے دو ساتھیوں کی جانب سے منظر عام پر لائے اختلافی نوٹ سے پریشان ہوں گے۔ وہ یہ محسوس کریں گے کہ ہماری اعلی عدالت میں لوگوں کو بدترین انداز میں تقسیم کرنے والے ایک اہم موضوع کی تازہ قسط شروع ہونے والی ہے جو ملک میں عدم استحکام کی کیفیت بھی ناقابل حل دکھائے گی اور عدم استحکام کے ماحول سے سب سے زیادہ پریشان کاروباری طبقات ہوا کرتے ہیں۔
حیران کن حقیقت مگر یہ رہی کہ لاہور اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں کے چند کامیاب ترین کاروبار چلانے والے جن صاحبان کی گفتگو میں نے سنی اس کے دوران ایک بار بھی سپریم کورٹ کے دو عزت مآب ججوں کی جانب سے لکھے اختلافی نوٹ کا تذکرہ نہیں ہوا۔ کئی معاملات پر ایک دوسرے سے قطعی مختلف رائے رکھنے کے باوجود یہ تمام کاروباری حضرات بنیادی طورپر صرف ایک نکتے پر متفق سنائی دئے اور وہ یہ کہ پاکستان کی سرکار کا رویہ کاروبار دوست نہیں رہا۔ اس نکتے کو ثابت کرنے کے لئے گفتگو میں شامل ہر شخص کے پاس سنانے کو کئی واقعات تھے جو پیغام دے رہے تھے کہ مختلف دھندوں میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران قابل رشک شمار ہوئے کئی کاروباری افراد بتدریج بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں۔ وطن عزیز میں رہ کر کاروبار کو وسعت دینے کے بجائے وہ اسے سمیٹنے کی لگن میں مصروف ہیں۔
سرکار مائی باپ کے مبینہ کاروبار دشمن رویہ کی وجہ سے اگر ہمارے یہاں کے متمول سرمایہ کار بیرون ملک منتقل ہورہے ہوتے تو میں شاید اتنا پریشان نہ ہوتا۔ جس محفل میں موجود تھا وہاں بیٹھے افراد نے اپنے دوستوں سے گفتگو کے دوران مگر دو بڑے نام بھی لئے۔راوی کی اطلاع کے مطابق و ہبھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی دھمکیوں کے بعد پہلے اپنے بیوی بچوں اور اب کاروبار کو بیرون ملک منتقل کررہے ہیں۔ اسلام آباد لوٹتے ہوئے میں نہایت پریشانی کے ساتھ خود سے یہ سوال اٹھاتا رہا ہوں کہ انتہائی کامیاب تصور ہوتے کاروباری لوگوں کی اپنے دوستوں کے ساتھ جو گفتگو میں نے سنی اور اس میں جو نکات نمایاں رہے وہ ہمیں 24/7باخبر رکھنے کے دعوے دار میڈیا کے ٹاک شوز میں زیر بحث آئے کیوں سنائی نہیں دیتے۔ سپریم کورٹ کے دو عزت مآب جج اپنی اختلافی رائے کو جس انداز میں برسرعام لائے ہیں وہ لاہور اور فیصل آباد سے آئے تگڑے کاروباری دوستوں کے مابین زیر بحث کیوں نہیں آئے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت اب میڈیا کی بدولت سپریم کورٹ کی ڈرامائی اور تاریخ ساز دِکھتی سماعتوں اور حکم ناموں سے بھی لاتعلق ہورہی ہے؟
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت