پاکستان و کشمیر کے بارے میں بھارتی افواج کے عزائم : تحریر تنویر قیصر شاہد


جب بھارت پر ابھی نریندر مودی کا راج نہیں تھا ، تب بھی پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات آئیڈیل نہیں تھے ۔ مودی سے پہلے کئی پاک بھارت جنگیں اور لڑائیاں ہو چکی تھیں ۔ اِن جنگوں کا مرکز و محور مسئلہ کشمیر رہا ہے ۔ یہ قضیہ ابھی بھی وہیں کا وہیں ہے ۔ مودی جی نے مگر سرے ہی سے اِس کا ٹنٹا ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بارے بھارتی آئین میں موجود شِق نمبر 370ختم کرکے ۔ بھارت اپنے تئیں مسئلہ کشمیر ختم کر چکا ہے ۔ یہ مسئلہ مگر ختم نہیں ہوا ۔ جب تک کشمیر بارے یو این او کی قراردادیں موجود ہیں اور جب تک کشمیریوں کا جذبہ حریت فراواں رہے گا، مسئلہ کشمیر متنوع بھارتی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکے گا۔

بھارتی آئین میں موجود کشمیر کی خصوصی حیثیت کی شِق نمبر370 کو ختم کرنے کے مودی اقدام کو آج 5اگست2024کو پانچ سال پورے ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کا جبر اسقدر بڑھ گیا ہے کہ کشمیری مجاہدین کی مسلح کارروائیاں محدود اور مسدود ہو چکی ہیں ۔ مودی حکومت اِسے اپنی ایک بڑی اسٹرٹیجک کامیابی قرار دیتی ہے ۔

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پاک بھارت بول چال بند ہونے سے پاکستان کو زیادہ اور بھارت کو نقصان کم پہنچا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ، جناب اسحاق ڈار، نے کئی مرتبہ کھل کر اور کئی بار زیر لب کہا ہے کہ ہماری تاجر برادری بھارت کے ساتھ تعلقات بحالی کی خواہشمند ہے۔مگر ہماری وزارتِ خارجہ مذکورہ خواہشات کے برعکس بیانات جاری کرتی ہے۔

بھارت ایک بڑا جمہوری اور پاکستان کا فوری ہمسایہ ملک ہے ۔ حقیقت پسندی کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ بھارت سے بہت سی سنگین شکایات کے باوصف بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہئیں ۔ پاکستان چاہتا بھی یہی ہے ۔ بھارتی حکومت ، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی افواج کے پاکستان بارے عزائم اور نیتوں کو مگر دیکھا اور پرکھا جائے تو ایک عام پاکستانی کا دل بھی کھٹا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی افواج کے سابق سربراہ، جنرل این سی وِج، کی تازہ ترین کتاب میں پاکستان اور کشمیر بارے اعترافات !

سابق انڈین آرمی چیف جنرل نرمل چندر وِج (این سی وِج)نے حال ہی میں اپنے مشاہدات و تجربات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب لکھی ہے ۔ اِس کا عنوان ہے : The Kashmir Conundrum:The Quest for peace in a Troubled Land (کشمیر کی پہیلی:مسائل سے بھری سرزمین میں امن کی جستجو)۔ جنرل وِج نے اپنی اِس کتاب میں دعوی کیا ہے کہ میں نے نہ صرف اِس کتاب میں جموں و کشمیر تصادم کی مکمل تصویر پیش کر دی ہے بلکہ آگے بڑھنے اور حل کا راستہ بھی بتا دیا ہے ۔جنرل وِج پھر اِدھر ادھر کی بے معنی ہانکنے کے بعد مزید لکھتے ہیں : نریندر مودی نے (5اگست2019 کو) کشمیر کی خصوصی حیثیت بارے آرٹیکل370 کا خاتمہ کرکے خوب اقدام کیا ۔ اب لگتا ہے کہ مودی جی نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور کشمیریوں سے بات چیت کے ذریعے حل کے تمام ممکنہ دروازے بند کر دیے ہیں۔گویا جنرل وِج نے بھی دوسرے الفاظ میں مودی جی کے5 اگست 2019کے کشمیر دشمن اقدام کی سراہنا ہی کی ہے ۔

جنرل وِج جی نے اپنی کتاب کا عنوان تو امن کی جستجو رکھا ہے مگر کتاب کے مندرجات امن کی فاختہ کے پر کاٹنے کے مترادف ہیں۔کشمیر اور قضیہ کشمیر بارے جنرل وِج بہت سے رازوں کے امین ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب کارگل پر پاکستان اور بھارت کے درمیاں خونریز جنگ ہوئی، اس وقت جنرل وِج انڈین آرمی کے شعبہ ملٹری آپریشنز میں ڈائریکٹر جنرل تھے ۔ یوں وہ جنگِ کارگل بارے بھی بہت سے حقائق سے براہِ راست آشنا ہیں ۔

وہ اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں: میرا خیال ہے کہ اِس خطے میں مسلح کارروائیاں فوری طور پر معدوم نہیں ہو سکیں گی لیکن میرا یقین ہے کہ اگلے آٹھ سے دس برسوں میں کشمیر میں مسلح جدوجہد بالکل ہی دم توڑ جائے گی۔ آج کشمیری پاکستان پر انحصار کرکے پچھتا رہے ہیں۔ مودی جی کے اقدامات نے کشمیریوں کی جملہ امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے سے قبل کشمیری خود کو بھارت سے علیحدہ شناخت کرواتے تھے لیکن آج وہ مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کا یہ احساس بجا ہے کہ وہ اب کشمیر میں اقلیت بنا دیے گئے ہیں ۔ علیحدہ وطن کے لیے ان کا خواب کبھی پورا نہیں ہونے والا۔جنرل وِج نے مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں لکھی گئی اِس کتاب میں جگہ بہ جگہ پاکستان کی کمزور معیشت پر کئی طنز بھی کیے ہیں ۔ لکھتے ہیں: پاکستان سفارتی ، فوجی اور معاشی میدانوں میں کسی بھی طرح بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ پاکستان کی معاشی حیثیت اِس قابل ہی نہیں رہی کہ وہ کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی مالی و اسلحی امداد کر سکے ۔

پاکستان کی معاشی بدحالی و ابتری نے کشمیریوں کو بھی مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیا ہے ۔ پھر وہ سوال اٹھاتے ہیں: اب کشمیریوں کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا انھیں اب بھی آزادی کے خواب دیکھنے چاہئیں؟ جو کچھ وہ نادانی میں کھو چکے ہیں، کیا اس میں نادانی سے پھر اضافہ کرنا چاہیے ؟کیا وہ ناامید اور معاشی طور پر برباد پاکستان کے سہارے بھارت کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟اِن سب سوالات کا بس ایک ہی جواب ہے: نہیں ۔موصوف نے نام نہاددلائل اور حقائق کے سہارے کشمیریوں کو پاکستان سے بدظن کرنے کی ، بہرحال، اپنی سی کوشش ضرور کی ہے ۔

بھارتی فوج کے سابق سربراہ ،جنرل وِج، نے اپنی کتاب میں خواہش اور پیشگوئی یوں بھی کی ہے : حالات و واقعات صاف بتا رہے ہیں کہ اگلے چند برسوں میں پاکستان معاشی طور پر مزید تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔ آنے والے برسوں کے دوران انڈیا معاشی طور پر دنیا کا ایک بڑا جِن بننے جا رہا ہے ۔ دنیا کی تیسری بڑی معاشی قوت ۔ یوں پاکستان اپنی مجبوریوں کے تحت طاقتور بھارت کی طرف رجوع کرے گا ۔

یہی وہ موقع ہوگا جب بھارت کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو اپنے ڈھب پر لا سکے گا۔ پاکستان نے کشمیریوں کو ریڈیکلائز تو کیا ، بھارت کے لیے عارضی طور پر مشکلات بھی پیدا کیں مگر اب پاکستان کشمیریوں کی اعانت کرنے کے قابل ہی نہیں رہا ۔ مودی جی کے اقدامات تلے (مقبوضہ) کشمیر میں ٹورازم صنعت پھر عروج پکڑ رہی ہے ۔ کشمیری خوشحال ہو رہے ہیں ۔ یہ خوشحالی کشمیریوں کو پاکستان سے دور لے جائے گی ۔جنرل وِج کے خیالات کے آئینے میں، پاکستان و کشمیر بارے، ہم بھارتی افواج کے عزائم پوری طرح دیکھ سکتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں کوئی ہے جو اِن عزائم پر نگاہ رکھے ہوئے ہے ؟؟

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس