تعلیمی اداروں میں اسپورٹس لازمی : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


آج کے انسان نے تعلیمی اور سائنسی حوالوں سے بے شک بہت ترقی کرلی ہو مگر بطورانسان اس کے کردار کی اچھائیوں کا جائزہ لیں تو کچے پکے کمروں والے اسکولوں میں پڑھے لوگوں کی اکثریت معیار پر اترتی ہے ، کچے پکے کمرے تو سامان رکھنے کے لئے ہوتے تھے ، ورنہ قدرتی ماحول میں کلاسیں لگتی تھیں ، دھرتی کی گود میں بیٹھ کر سبق حاصل کیاجاتا ، فطرت کے نظاروں اور لشکاروں سے بھی ہمکلامی بڑھتی اور ہم جماعتوں سےمباحثہ بھی ۔گرمیوں میں گھنے درختوں کے نیچے اور سردیوں میں چمکتی دھوپ میں استاد کی کرسی میز ، تختہ سیاہ اور ٹاٹ پر بیٹھے بچوں نے استاد کے ساتھ فطرت اور ماحول سے بھی گیان پایا ۔ اسکول میں تربیت کیلئے پورا سماج موجود ہوتا تھا، اسکول آتے جاتے ، گلیوں سے گزرتے ، کھیلتے کودتے جہاں کوئی غلطی سرزد ہوتی ، آس پاس موجود لوگوں کی طرف سے سخت سرزنش ہوتی اور اس کا نہ بچے نہ ہی ان کے والدین برا مناتے کہ بچوںکی تربیت اور اخلاق کا خیال کرنا پورے سماج کی ذمہ داری سمجھنے کا رواج تھا ۔اس مجموعی ماحول اور ان اسکولوں سے فارغ التحصیل لوگوں کی شخصیت میں روایتی رکھ رکھاؤ ، برداشت ، چھوٹے بڑے کا لحاظ اور تعظیم کی قدریں رچ بس گئیں ۔شخصیت کے توازن میں بڑا کردار کھیلوں کا تھا ۔نوجوانوں کے وجود میں موجود طاقت انھیں اْڑنے اور دوڑنے پر اْکساتی ہے، اس کا بہترین اظہار کھیلوں میں ہوتا ہے جہاں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ مقابلے کی فضا بھی ہوتی ہے۔ ہار یا جیت کی صورت میں خود پر قابو رکھنا اصل امتحان ہوتا ہے ۔کھیل کتھارسز کا وسیلہ بھی ہیں اور صحت کی علامت بھی۔اسپورٹس مین اسپرٹ بھی کھیلوں کی عطا کردہ خوبی ہے جو فرد کو میانہ روی ، برداشت اور دوسرے کی کامیابی کو تسلیم کرنے کا گْر سکھاتی ہے۔ پیرس اولمپکس میں پاکستانی ایتھلیٹس کی مایوس کن تعداد اور کارکردگی پر ہر فرد نالاں ہے مگر اسباب پر کوئی بات نہیں کرتا، حکومت ، والدین اور اساتذہ کو سوچنا اور لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ کھیلوں میں خاطر خواہ ترقی نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ ریٹائرڈ افسران کو مختلف ایتھلیٹکس کا سربراہ بنانا بھی ہے۔ ان عہدوں پر مخصوص لوگوں کو نوازنے کی بجائے ماہر لوگوں کو کسی قاعدے کے تحت منتخب کرنا چاہئے۔

آج ہمارے ارد گرد عجب بدتہذیبی اور فاشزم کا دور دورہ ہے کوئی بھی دوسرے کو سننے اور برداشت کرنے کو تیار نہیں، ملک کی آبادی میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں جن کے پاس روایتی ڈگریاں تو ہیں مگر ہْنر کوئی نہیں، ان کی شخصیت میں عجیب ہٹ دھرمی سرایت کر چکی ہے۔وہ فارغ بیٹھے ہیں کیونکہ اْن کے پاس کرنے کو کوئی سرگرمی نہیں، اس لئے اپنے غم وغصے کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے رہتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے تمام حدود عبور کرجاتے ہیں ۔پاکستان صلاحیتوں سے مالا مال لوگوں کا ملک ہے ۔سب بچوں، ٹین ایجرز اور نوجوانوں کے لئے اسکول ، کالج میں اسپورٹس لازمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے، ان کے نمبرز ہوں جو طالبعلم کھیلوں کی طرف خاص رحجان رکھتے ہوں ان پر بھرپور توجہ دی جائے، تعلیمی اداروں میں دیسی کھیلوں اور دیگر ایتھلیٹکس کے مقابلے کرائے جائیں ،بہتر کارکردگی والے بچوں کو قومی سطح پر تربیتی اداروں میں بھیجا جائے۔ ہم نے کرکٹ کو اپنے اوپر فرض کر رکھا ہے جبکہ دیگر کھیلوں سے انسان کی شخصیت اور صحت پر زیادہ مثبت اثرہوتا ہے، بند عمارتوں میں قائم پرائیویٹ اسکولوں کو کھیل کے میدان کے لئے پابند کیا جائے۔اسکول کالج سے آنے کے بعد اب بچوں اور نوجوانوں کا زیادہ تر وقت موبائل اور کمپیوٹر کے ساتھ گزرتا ہے، عملی سرگرمی کم ہونے سے اْن کی جسمانی نشوونما اور صحت متاثر ہورہی ہے، اس لئے اگروہ تعلیمی اداروں میں کھیلوں سے جْڑیں گے تو یہ جْڑت انھیں چھٹیوں اور فارغ اوقات میں کمرے سے نکال کر میدان اور پارک میں لے جائے گی ، وہ کسی مقصد سے وابستہ ہو کر منفی سرگرمیوں سے محفوظ رہیں گے پھر آج کے بچے اور نوجوان جب اسکول کالج میں مختلف کھیلوں میں حصہ لے کر اپنے آپ کو منوائیں گے تو سڑکوں پر ون ویلنگ کرکے اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔تمام صوبائی حکومتوں سے گزارش ہے کہ اسکولوں کالجوں میں اسپورٹس کو لازمی قرار دیں اور اس سلسلے میں کھیلوں کا استاد اور مطلوبہ سہولیات فراہم کریں ، بہت سے کھیلوں میں کچھ خرچ نہیں ہوتا جیسے دوڑنا، چھلانگ لگانا ، وزن اٹھانا، کْودنا، تیراکی، والی بال، فٹ بال، جوڈو کراٹے، وغیرہ۔ اس طرح آئندہ نسل کو اخلاقی ، ذہنی اور جسمانی طورپر صحت مندبنایا جاسکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ