قومی اسمبلی، علمائے کرام اور سپریم کورٹ کا متنازعہ فیصلہ : تحریر انصار عباسی


آج بروز اتوار تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوے محترم مفتی منیب الرحمٰن نے سپریم کورٹ کے قادیانیت کے متعلق حالیہ متنازع فیصلہ پرعلمائے کرام کا متفقہ موقف پیش کیا جس کے مطابق فیصلے نے قادیانیت کے متعلق ابہام پیدا کیے۔ مفتی صاحب نے متفقہ تحریری بیان پڑھتے ہوے کہا کہ علماء کرام کی رائے میں قادیانیوں کیلئے اس فیصلے میں تبلیغ کی گنجائش پیدا کی گئی ہے جس کا ازالہ اگرنہ کیا گیا تو یہ ملک و ملت کیلئے خطرناک ہو گا۔ مفتی صاحب نے کہا کہ علماء کرام اور آئین و قانون کے ماہرین نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ٹھنڈے دل سے پڑھا اور سمجھنے کی کوشش کی اور اپنا ردعمل دیا۔ مفتی صاحب نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا متنازع فیصلے کے متعلق علماء کرام کی متفقہ رائے کو سمجھا جائے اور آئین میں دیے گئے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اس متنازع فیصلے کو درست کیا جائے، اُس میں موجود غلطی، سقم اور ابہام کو دور کیا جائے تاکہ مسلمانوں میں پائے جانے والے خدشات کا ازالہ ہو سکے۔ علماء کرام نے یہ بھی تجویز دی کہ پارلیمنٹ بھی قانون میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے متنازع پہلوؤں کو بے اثر کر سکتی ہے۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ آئین پاکستان اور قانون کے مطابق قادیانیوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کریں اور کسی بھی تاویل و توجیہ کے تحت اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ نہ کریں۔ مفتی صاحب کے مطابق سپریم کورٹ نے قادیانیوں کو نہ اس امر کا پابند بنایا نہ اُن کو تنبیہ کی کہ اُن کا خود کو مسلمان قرار دینے کا claim آئین سے انحراف اور بغاوت ہے۔ اس موقع پر مفتی صاحب نے دینی حلقوں اور عوام پر بھی زور دیا کہ عدالتی فیصلہ پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں متانت، وقار اور اسلامی اخلاقیات کا پاس رکھنا چاہیے اور تہذیب سے گری ہوئی گفتگو اور گالم گلوچ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

چند دن قبل قومی اسمبلی نے بھی سپریم کورٹ کے اس متنازع فیصلہ کے حوالے سے دو ٹوک پیغام دیا کہ اس معاملہ پر کسی بھی قسم کے ابہام یا رعایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اسمبلی ممبران یک زبان تھے کہ قادیانیت کا مسئلہ آئین و قانون کے تحت دہائیوں پہلے حل ہو چکا، اُس پر مہر لگ چکی۔ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر تمام مسلمان مکمل اتفاق رکھتے ہیں۔ یعنی یہ ایک Settled ایشو ہے جسے کسی طور پر بھی دوبارہ نہ چھیڑا جائے۔ یہ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق ہمارے ایمان کے ساتھ جڑاہے۔ اسے کوئی بدل نہیں سکتا۔قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے حوالے سے بحث کے دوران وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ تمام مسلمان ختم بنوتؐ پر کامل ایمان رکھتے ہیں، عدلیہ کو صرف آئین کی تشریح کا اختیار ہے، آئین کی ہیئت تبدیل کرنے یا اسےری رائٹ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ وزیر قانون نے مطالبہ کیاکہ اس معاملے کو کمیٹی میں بھیج دیں تاکہ ساری کمیٹی اس معاملے کو باریک بینی سے دیکھے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے پر ہم سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مولانا غفورحیدری نے کہا کہ ختم نبوتؐ کے معاملے پر ججز نے جورائے دی ہے وہ شریعت، آئین اور قانون کے خلاف ہے، اگر چار دیواری میں کوئی جرم ہورہا ہو تو اس کی سزا بھی زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ ختم نبوتؐ ہم سب کے ایمان کا حصہ ہے اور اس پر سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر سب ایک ہیں۔ اراکین اسمبلی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔علی محمد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ فیصلے سے ابہام پیدا ہواہے،وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔مسلم لیگ (ن) کے رکن حنیف عباسی نے کہا کہ آئین و قانون کے تحت قادیانی چار دیواری کے اندر رہ کر بھی اپنے مذہب کا پرچار نہیں کر سکتے۔پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ ایسا فیصلہ بھی نہ دیا جائے جو انتشار پھیلائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسا فیصلہ دینے والوں کی سزا کے تعین کے بارے میں بھی کمیٹی بنائی جائے۔اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ختم نبوتؐ کے حوالے سے کوئی دو رائے ہے ہی نہیں۔ قومی اسمبلی میں یہ بھی بات کی گئی کہ ایسے فیصلے کو پارلیمنٹ ختم کرنے کا بھی اختیار رکھتی ہے۔ا سپیکر کی طرف سے اس معاملہ پر بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ کا ابھی انتظار ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ