تضادستانی ڈکشنری!! : تحریر سہیل وڑائچ


دنیا کی ساری لغات ’’جھوٹ‘‘ پرمبنی ہیں صرف تضادستان کی ڈکشنری’’مکمل سچ‘‘ ہے۔ اسلئے تضادستان کے معاملات کوسمجھنا ہے تو صرف اس لغت سے رجوع کریں۔

اللّٰہ: یہاں سارے کام اللّٰہ کے سپرد ہیں غلطی ہماری ہوتی ہے مگر توقع ہوتی ہے کہ اللّٰہ ہماری مدد کرے۔ کرکٹ کی ٹیم بدترین کارکردگی دکھارہی ہوتی ہے اور ہم سب اللّٰہ سے دعا کر رہے ہوتے ہیں ان نکموں کو بھی جیت دلا دے۔ یہ ریاست اللّٰہ کےنام پر بنی ہے اس لئے وہ ہی اسے سدھارے گا ہم تو اس حوالے سے نہ کوشش کریں گےنہ ضرورت ہے۔ اللّٰہ مالک ہے وہی ہماری حفاظت کرے گا۔

امریکہ : ہمیں پیسے دے تو ٹھیک وگرنہ استعمار ۔یہ اسرائیل کا دوست اور اسلام کا دشمن ہے۔ ویزا دے تو اس سے اچھا کوئی ملک نہیں۔ شہریت دیدے تو دین و دنیا دونوں سنور جائیں اگلی نسلوں کا بھی بھلا ہو جائے ۔ امریکہ ہے ہمارا دشمن لیکن اگر ہمارے کہنے پر چلے تو اس سے بات ہوسکتی ہے۔ روس کے افغانستان پر حملے میں ہماری مدد کرے تو اسلام کی مدد اورنائن الیون کے بعد اسی افغانستان پر حملہ کرے تو عین کفر۔

آرمی: دنیا کی بہترین فوج جس نے روس اور امریکہ دونوں کوافغانستان میں ناکوں چنے چبوا دیئے ان کی ناک رگڑ وادی۔ ہماری توقع ہے کہ اسلامی بم سے پورے عالم اسلام کی حفاظت کرے مضبوط اتنی ہو کہ دشمن کی سازشیں گھر نہ کرسکیں مگر میرے پسندیدہ لیڈر کے خلاف کچھ کرنے کا اسے اختیار نہ ہو۔

اسلام :ہمارا اسلام نہ سعودی عرب والا ہے اور نہ ترکی والا۔ ہمارا اسلام بیت المقدس پر حملے میں تو غصّے سے کھولتا ہے مگر پڑوسی کشمیر کے بارے میں ہمارے جذبات ٹھنڈےہیں۔ ہمارا اسلام بھارت میں مسلمان اقلیت پر ظلم پر تو آواز اٹھاتا ہے مگر ہمیں اقلیتوں کے یہاں اسلامی حقوق یاد نہیں دلاتا۔ ہمارا اسلام ہم پر لاگو نہیں لیکن ہم اسے دوسرے پر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔

اوورسیز: تضادستان کے پلے بڑھے، یہاں تعلیم پائے یہ لوگ اپنے ہی ملک کی ہر بات پر تنقید کرتے ہیں انہیں اپنے ملک کی کوئی چیز پسند نہیں آتی۔ سیاست، معیشت ، معاشرت اور حکومت ہر ایک پر تنقید کرتے ہیں بچے ماؤں پر تنقید کریں یہ حق صرف تضادستان اوورسیز کو حاصل ہے خود واپس آکر کچھ کرنے کو تیار نہیں وہاں بیٹھے آگ سے کھیلنے والوں کو ہدفِ تنقید بناتے رہتے ہیں۔

جج:جج تو فرشتے ہوتے ہیںیہاں جرنیل، سیاستدان اور جرنلسٹ سب جیل جا چکے ہیں آج تک کوئی جج جیل نہیں گیا کسی کو سزا نہیں ملی انہوں نے ملک کی تقدیر کو الٹا کر رکھ دیا مگر چونکہ وہ فرشتے ہیں اس لئے تنقید اور سزا سے بالا ترہیں۔ اسمبلیاں توڑیں،پھانسیاں دیں نااہل کریں وزیراعظموں کو گھر بھیجیں تب بھی وہ پوتّر کے پوتّر اور باقی سب پاپی۔

جرنیل :حاضر سروس جرنیل سب سچے ہوتے ہیں، وہ نہ کسی کی سنتے ہیں نہ حالات کو دیکھتے ہیں اپنی مرضی ہی کو خدائی احکام سمجھتے ہیں سچا دردِ دل رکھتے ہیں مگر فیصلے غلط کرتے ہیں سیاست کا ذرا علم نہیں مگر سیاست کرنے کی کوشش کرتے ہیں البتہ ریٹائرڈ ہوکر جرنیل اپنی غلطیاں مان لیتے ہیں جس ریٹائرڈ جرنیل سے ملیں وہ کہتا ہے مارشل لا غلط ہوتا ہے چاہے وہ خود بھی مارشل لگانے والوں میں شامل رہا ہو۔

جرنلسٹ :یہ خود کو طرمّ خان سمجھتے ہیں معاشرے کی اصلاح کے جعلی ٹھیکے دار ہیں انہی کے اندروہ جغادری موجود ہیں جو مارشل لاؤں کے حامی تھے اب وہ بھی جمہو ریت کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔ صحافی غریب ہوتے تھے تو ان پر رحم آتا تھااب متمول ہوتے ہیں تو ان پر غصہ آتا ہے یہ دو ٹکے کے لوگ ہر ایک پر تنقید کےعادی ہیں۔

سیاستدان : یہ مخلوق یا تو جیل میں ہوتی ہے یا پھر حکومتی ریل میں سواری کرتی ہے۔ جج، جرنیل اور جرنلسٹ سب کے لئے یہ مخلوق تختۂ مشق ہے سب انہیں کرپٹ قرار دیتے ہیں مگر عوام پھر بھی ا نکو منتخب کرکے بھیج دیتے ہیں طاقتور انہیں جیل بھیجتے ہیں مگر وہ عوامی طاقت سے پھر حکومتی ریل میں سوار ہو جاتے ہیں یہ سلسلہ 75سال سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہنے کا امکان ہے ۔

انصافی: یہ آج کل سب سے ’’مظلوم‘‘ سب سے ’’سچے‘‘ اور سب پر ’’بھاری‘‘ ہیں مگر نہ سیاسی تاریخ پڑھتے ہیں اور نہ انہیں د لچسپی ہے آگ سے کھیلتے ہیں مگرجو ماضی میں آگے میں جلے ان کے بارے میں جانتے تک نہیں ۔سیاست میں ہیں مگر سیاست کے خلاف ہیں جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگر جمہوری اصولوں کے خلاف ہی فوج سے مل کر حکومت کرنا چاہتے ہیں مگر اسی فوج کو گالیاں نکالتے ہیں اکثریتی رائے ان کے ساتھ ہے مگر اقلیتی رائے کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ظلم کرتے رہے مگر خود ظلم سہہ نہیں سکتے۔

نونی: آج کل مکمل کنفیوژڈ ہیں۔ نہ ووٹ کو عزت دو پر چل رہے ہیں اور نہ ہائبرڈ رجیم کو قبول کر رہے ہیں تیزی سے غیر مقبولیت کی طرف رواں دواں ہیں کوئی بیانیہ بنانہیں پا رہے ان کے لیڈر نواز شریف صدر بننے کے باوجود ملنے ملانے ، دورے کرنے اور کھل کر بولنے کو تیارنہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف سیاست کی بجائے حکومت پرفوکسڈ ہیں نہ تو کسی نونی کا کوئی کام ہورہاہے ،ہر کوئی دل گرفتہ اور اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔

پیپلے: کسی زمانے میں پنجاب میں بھی اکثریت میں ہوتے تھے اب تھوڑے رہ گئے ہیں۔روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ پرانا ہوچکا ان کا لیڈر بلاول پارٹی میں نیا خون لانے میں کامیاب نہیں ہورہا ٹھوکریں کھا کر یہ سمجھدار تو بہت ہوچکے مگر ان کا ہاتھ نہ مڈل کلاس کی نبض پر ہے اور نہ یہ نوجوانوں کے جذبات سمجھنے کےلئے تیار ہیں۔ کیا یہ آہستہ آہستہ معدوم ہو جائیں گے یا پھر نئے بیانیے کے ساتھ زندہ ہوسکتے ہیں۔ یہ سوال ابھی جواب طلب ہے۔

جماعتیے: کسی زمانے میں یونیورسٹیوں اور بڑے شہروں میں ان کا طوطی بولتا تھا اب ہر حلقے میں 3سے4ہزار ووٹ ملتے ہیں۔ کسی زمانے میں شوکت اسلام مناکر سمجھتے تھے ان کا غلبہ ہونے لگا ہے مگر جیت پیپلےگئے تھے۔ آج دھرنوں اور عوامی مسائل کی طرف متوجہ ہیں مگر جس جماعت کا ووٹ بینک روٹھ جائے اس کا بھر م تو شاید قائم ہو وہ بطور ٹھوس حقیقت اپنا وجود کھودیتی ہے۔

سرخ: جب کمیونزم عروج پر تھا تو وہاں کی آمریت اور آزادی پر پابندیوں کی حمایت کرتے تھے اب جمہوریت اور آزادی کے متوالے بن چکے ہیں ان کا ووٹ بینک نہ تھا نہ ہوگا مگر معاشرے میں معاشی مساوات کی آواز بلند ہونی ضروری ہے تاکہ توازن رہے۔

لبرل: نہ انہیں دایاں بازو مانتا اور نہ بایاں۔ یہ درمیان میں معلق ہیں نہ سرمایہ داری نظام ان کو پسند ہے اور نہ اشتراکی۔ ان کے پاس صرف اسکینڈےنیویا کی جمہوریت کا ماڈل ہے۔

مولانا: اس سے سب ڈرتے ہیں کب کسی پر کفر کا فتویٰ لگا دے اور وہ نہ دنیا کا رہے نہ دین کا…

بشکریہ روزنامہ جنگ