لاہور میں ایسی بارش ہوئی کہ جل تھل ہو گیا۔ پانی اتر گیا لیکن زمین گیلی ہے۔ صحافی کی مجبوری ہے کہ سورج آگ برسا رہا ہو یا سردی سے دانت بج رہے ہوں ،دھند میں راستہ سجھائی نہ دیتا ہو ، اسے اپنی بات کہنا ہوتی ہے۔ صحافی سیاست دان نہیں کہ موقع محل کی مناسبت سے تقریر مرتب کر لے۔ آج بھی کچھ پھسلواں قطعات میں قدم رکھنا ہے لیکن کیا کیا جائے۔ گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے۔ صف اول کے اردو فکشن نگار اکرام اللہ سے ان کے ناولٹ آنکھ اوجھل کا ذکر ہوا۔ پچانوے سالہ بزرگ نے ایک سچے تخلیق کار جیسی سادگی سے کہا میں نے یہ سوچ کر لکھا کہ آنے والی نسلو ں کو شکوہ نہ ہو کہ ہماری نسل میں ایک بھی صاحب ضمیر نہیں تھا کہ سامنے کی ناانصافی پرقلم اٹھاتا۔ اگر ادیب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے تو صحافی کو بھی سوچنا چاہیے کہ آئندہ نسلیں اس کے لکھے پر کیا حکم لگائیں گی۔ تاریخ کا حکم دو ٹوک اور تعزیر سخت ہوتی ہے۔ عنوان میں بوسکی کناری کی ترکیب اردو ادیب حسن منظر کے ایک افسانے سے مستعار لی گئی ہے۔ اس کا مفہوم آپ کو سیاق و سباق میں معلوم ہو جائے گا۔
برادرم سہیل وڑائچ کو اوپر تلے لکھے دو کالموں کی وضاحت میں تیسرا کالم لکھنا پڑا۔ عنوان دیا اک گناہ اور سہی۔ ہدایت کار حسن طارق نے 1975 میں اس عنوان سے فلم بنائی تھی۔ اسی برس ہدایت کار ممتاز علی نے بھی دلہن ایک رات کی کے نام سے ایک فلم بنائی تھی۔ بھائی سہیل وڑائچ کے موقف کا المیہ ان دو فلموں کے ٹائٹل میں کہیں رکھا ہے۔ سہیل صاحب مقتدرہ سے ملتجی ہیں کہ ملک جس بند گلی میں آن پہنچا ہے وہاں سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ عمران خان کو یہ سوچ کر اقتدار میں لایا جائے کہ جہاں سات دہائیوں میں اتنی غلطیاں کی ہیں وہاں اک گناہ اور سہی۔ سہیل صاحب کے خیال میں اگر زور آزمائی کا موجودہ کھیل جاری رہے گا تو ملک کو سیدھی سڑک پر لانا مشکل ہو جائے گا۔ برادرم سہیل کے نقطہ نظر میں چند در چند الجھنیں ہیں۔ سہیل وڑائچ جن عناصر کے لیے ایک اور گناہ کا اجازت نامہ چاہتے ہیں، وہ ایک رات کی دلہن بننے پر تیار نہیں ۔ 2022 کے موسم خزاں میں ون پیج حکومت اسی لیے لڑکھڑائی کہ ایک رات کی دلہن حویلی پر مستقل قبضے کے لئے گٹھ جوڑ کر رہی تھی۔ 30 جنوری 1933 کو ہٹلر جرمنی کا چانسلر بنا تو اس شام جنونی حامیوں کے ہجوم کو بالکونی میں درشن دیتے ہوئے ہٹلر کے ہمراہ کھڑے گوئرنگ نے کہا تھا کہ اب ریشتاغ (پارلیمنٹ)سے ہماری لاشیں ہی باہر نکلیں گی۔ گویا تاحیات اقتدار کے ارادے تھے۔ ان دنوں امریکا میں انتخابی مہم چل رہی ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک تقریر میں کہا ہے کہ امریکا کے مسیحی مجھے صرف اس دفعہ ووٹ دے دیں ۔ آئندہ انہیں اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ مطلب یہ کہ میں آئندہ مدت صدارت میں امریکی جمہوریت کو اس طرح بدل کے رکھ دوں گا کہ کسی مخالف کو سر اٹھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑوں گا۔ عمران خان کی سیاست میں جمہوری اقدار کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جمہوریت نام ہی حزب اختلاف کے حق اختلاف کو تسلیم کرنے کا ہے۔ عمران خان نے پونے چار برس اقتدار میں اپوزیشن سے ہاتھ ملایا اور نہ آج سیاسی قوتوں سے بات کرنے پر تیار ہیں۔ وہ واضح طور پر اس مقتدرہ سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔ مقتدرہ کی اصطلاح کا مطلب ہی فیصلہ سازی اور وسائل پر ماورائے آئین اجارہ ہے ۔ عمران خان مقبول سیاست دان ہیں لیکن وہ پاکستان کی واحد سیاسی قوت نہیں ہیں۔ وفاق پاکستان کی تمام اکائیوں میں ان کی مقبولیت ایک جیسی نہیں۔ عمران خان کی مخالف سیاسی قوتیں اتنی مضبوط ضرور ہیں کہ انہیں دیوار سے لگانے کے لیے مقتدرہ کو دس برس تک عمران خان کی کھلی پشت پناہی کرنا پڑی۔ اس کے باوجود 2018 کا تجربہ سیاسی اور معاشی طور پر ناکام رہا ۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ25 کروڑ عوام کو گناہوں کے ایک طویل سلسلے سے نجات کے لیے دو پراپرٹی ڈیلروں میں کاروباری جھگڑے کا انتظار کرنا پڑے۔ یہ بھی خیال رہے کہ عمران خان کا حامی طبقہ دہائیوں سے مقتدرہ کا حقیقی دست و بازو رہا ہے ۔ قوم کے مقتدر حلقوں میں اس سوچ کی طاقت اور رسائی کا اندازہ 9مئی کے واقعات کے سیاق و سباق سے لگایا جا سکتا ہے۔ 3 اپریل 2022 کو عمران خان نے قومی اسمبلی توڑ دی اور 10اپریل 2022 کی رات پارلیمنٹ چھوڑ کر نکل گئے۔ عمران خان کو 2018 ہی کی طرح ڈولی میں بٹھا کر ایوان وزیراعظم لے جایا گیا تو کیا مخالف سیاسی قوتیں خاموش ہو کر بیٹھ رہیں گی۔ سیاسی بحران مزید نہیں بڑھے گا۔ کلی اقتدار کے خواہشمند عمران خان معیشت ، سیاست ، آئینی اداروں اور خارجہ تعلقات کا ستیاناس نہیں کریں گے۔ میری رائے میں اک گناہ اور سہی کے نام پر ایک رات کی دلہن گھر لانے کی بجائے دستور اور جمہوریت کی سہاگن کو اپنا راستہ اختیار کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ گلی کوچوں میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک کے چیف جسٹس کو سرعام دھمکیوں کے ردعمل میں خواجہ آصف اور احسن اقبال ایک نیم مردہ پریس کانفرنس کرتے ہیں ۔ ادھر قومی اسمبلی میں عبدالقادر پٹیل ایسی اشتعال انگیز تقریر کرتے ہیں جس پر پیپلز پارٹی دیر تک شرمندہ رہے گی۔ صاحبزادہ حامد رضا ، علی محمد خان اور عبدالغفور حیدری کے ارشادات تو بہرصورت حسب توقع تھے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ قانونی پہلوئوں پر بات کر تے ہوئے ایک ایسے ایوان سے مخاطب تھے جس کے بہت سے ارکان ایک فوجداری قانون کو آئین سے گڈ مڈ کر رہے تھے۔ جہاں مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی اس حد تک پہنچ جائے، وہاں یہ سوال اٹھانا بے معنی ہو جاتا ہے کہ مبینہ ویڈیو میں نظر آنے والی آمنہ عروج جیل بھیج دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ بوسکی کناری کرنے والے ڈرامہ نگار بھی تو عدالتی فیصلے تک برابر کے ملزم ہیں ۔ وہ کس خوشی میں مولوی ظہیر الحسن کی طرح آزاد پھر رہے ہیں؟
بشکریہ روزنامہ جنگ