فورم کے اراکین ، جن میں سابق سیکرٹری داخلہ گوپال پلئے ، کشمیر کی سابق مذاکرات کار رادھا کمار اور سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ ، 2020 سے دسمبر 2023 کے درمیان UAPA یعنی ا نسداد دہشت گردی قانون اور بد نامہ زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 2,700 سے زیادہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، ان میں سے 1,100 کو’اوور گراؤنڈ ورکرز’ یا عسکریت پسندوں کے سہولت کار کے طور پرکیس درج کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ججوں کی جانب سے 2023-2024 میں گرفتاریوں کو منسوخ کرنے اور/یا ضمانت دینے کارجحان بڑھ گیا ہے، جس سے کسی حد تک امید کی کرن روشن ہو گئی ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق، 19 جنوری 2024 تک بھارت میں 7 صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ ان میں سے 4 کا تعلق جموں و کشمیر سے تھا۔ دو کے خلاف UAPA اور دو کے خلاف PSA کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) نے اعلان کیا تھا کہ فروری 2024 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عوامی سماعتیں ہوں گی، لیکن سماعتیں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئیں۔ اکتوبر 2019-دسمبر 2022 کے درمیان جموں و کشمیر سے NHRC کے پاس رجسٹرڈ 1,164 مقدمات پر کارروائی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے، اور نہ ہی ان 765 شکایات پر جو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے پاس زیر التوا تھیں جب اسے 2019 کے تنظیم نو کے قانون کے بعد ختم کیا گیا تھا۔خواتین کے قومی کمیشن (NCW) نے جموں اور کشمیر میں اپنے فرائض کو ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ فار سوشل سائنسز (TISS) کو آٹ سورس کر دیا ہے۔ چونکہ حکومت کا ایک بڑا دعوی معیشت سے متعلق ہے اور پانچ سال قبل بھی یہی بتایا گیا تھا کہ آئین کی خصوصی شق باہر سے سرمایہ کاری میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔اس رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ معیشت ابھی بھی 2019کی پوزیشن پر واپس بحال نہیں ہوئی ہے۔ اپریل 2015-مارچ 2019 کے درمیان، ریاست کی خالص گھریلو پیداوار (NSDP) اوسطا 13.28 فیصد (بشمول لداخ) بڑھی تھی۔ خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد پچھلے پانچ سال سے این ایس ڈی پی کی شرح نمو اوسطا 8.73 فیصد رہ گئی ہے۔ اسی طرح اپریل 2015 تا مارچ 2019 کے درمیان فی کس NSDP کی شرح نمو 12.31 فیصد تھی؛ اپریل 2019-مارچ 2024 کے درمیان یہ 8.41 فیصد رہ گئی ہے۔ یہاں تک کہ 2016-2017 کے سالوں میں بھی، جب پورا کشمیر انتفادہ کی نذر تھا، NSDP اور فی کس NSDP کی شرح نمو 2019 کے بعد کے مقابلے بہتر تھی ۔، فورم نے دستاویز میں بتایا ہے کہ نئے قوانین نے مقامی صنعت کو قومی کمپنیوں کے حق میں بے اختیار بنادیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2019-2023 کے درمیان 901.82 ارب کی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہونے کے باوجود، کلیئر شدہ اصل سرمایہ کاری 53.19ارب روپے ہی ہے۔ مرکزی وزارت خزانہ کی جانب سے اخروٹ اور سیب پر درآمدی ڈیوٹی میں 20 فیصد کی کٹوتی کی وجہ سے کشمیر کے میوہ اگانے والے پریشان ہیں۔ چین، ترکی اور امریکہ سے درآمد کئے جانے والی فروٹ سے کاشتکار مزید متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح وزارت کی جانب سے واشنگٹن سیب پر درآمدی ڈیوٹی کو 70 سے کم کرکے 50 فیصد کرنے سے سیب کے کاشتکاروں کو دھچکا لگا ہے۔ جموں و کشمیر میں تقریبا 35 لاکھ لوگ سیب کی کاشت کرتے ہیں۔اس سے بھی مایوس کون بات یہ ہے کہ کشمیر کے مشہور زعفران کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ 2010-2011 میں 8 ٹن زعفران پیدا ہوا تھا، 2023-2024 میں، صرف 2.6 ٹن پیدا ہوا ہے، جو کہ 67.5 فیصدکی کمی ہے۔ کاشت کا رقبہ بھی، 1996-1997 میں 5,707 ہیکٹر زمین سے کم ہو کر آج 3,715 ہیکٹر رہ گیا ہے۔ زعفران نمی کے لیے حساس فصل ہے۔ طویل خشک موسم اور مناسب آبپاشی کے نظام کی کمی کی وجہ سے شاید یہ فصل ہی ختم نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ اپریل 2023-مارچ 2024 بے روزگاری کی شرح ہندوستان میں سب سے زیادہ کشمیر میں ہی تھی۔ نوجوانوں کی بے روزگاری 18.3 فیصد تک ہے۔ فورم کی 2023 کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ بے روزگاری اور منشیات کے استعمال کا جموں اور کشمیر میں گہرا تعلق ہے۔ مرکزی وزارت صحت کے مطابق، جموں و کشمیر منشیات کے استعمال کے لیے سرفہرست خطوں میں سے ایک ہے، جس میں اندازے کے مطابق 900,000 منشیات کے عادی ہیں۔اسی طرح ایک اندازے کے مطابق جموں و کشمیر کی 55.72 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے، جس میں سب سے زیادہ تعداد 15-35 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ہے۔ دیہی علاقوں میں، خواتین میں ڈپریشن کی شرح 6.8 فیصد مردوں کے مقابلے میں تقریبا 93.10 فیصد تھی۔ خودکشی کی شرح 2020 میں 2.10 فی 100,000 سے بڑھ کر 2023-2024 میں 2.40 ہوگئی ہے۔ 2022 میں، جموں اور کشمیر میں سب سے زیادہ خودکشی کی کوشش کی شرح دیکھی گئی۔آرٹیکل 370 کے خاتمہ اور کوویڈ 19 وبائی امراض کے بعد، 2019-2021 کے درمیان خودکشی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا۔ خودکشی کرنے کے سب سے عام طریقے یا تو منشیات کی زیادہ مقدار لینا یا ڈوب جانا ہے، جہاں بچانے کی بہت کم گنجائش رہتی ہے۔ ریاست کے باہر تعلیم حاصل کرنے والے جموں و کشمیر کے 16 طلبا نے خودکشی کی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ذہنی صحت کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے۔ 12.5 ملین کی ریاست میں صرف 41 ماہر نفسیات ہیں اور ان میں سے زیادہ تر سری نگر اور جموں شہروں میں مرکوز ہیں۔ ضلعی سطح پر مشکل سے پانچ یا چھ سائیکاٹرسٹ ہی کام کرتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز