ریاست سے ایک سوال : تحریر حامد میر


اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک شہری کی حیثیت سے میں ایک سوال اٹھا رہا ہوں۔ یہ سوال حکومت سے نہیں ریاست سے پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی تہران میں شہادت کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں اسماعیل ہنیہ کے خاندان اور فلسطینی عوام کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے’’اسرائیلی ایڈونچر ازم‘‘ کی مذمت کی گئی ۔ دفتر خارجہ کا یہ بیان میڈیا کو جاری کر دیا گیا اور میڈیا میں رپورٹ بھی ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس بیان میں سے ’’اسرائیلی ‘‘ کا لفظ ہٹا دیا گیا اور پاکستان کی مذمت کو کسی نامعلوم’’ ایڈونچر ازم‘‘ تک محدود کر دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان میں سے اسرائیل کا لفظ کیوں اور کس کے حکم پر نکالا گیا ؟ کیا ریاست پاکستان نے عوام کے منتخب ادارے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی ایسا فیصلہ کر لیا ہے جس کا اعلان کرنا مناسب نہیں۔

یہ سوال اس لئے اٹھا رہا ہوں کہ کچھ عرصے سے پاکستان کا دفتر خارجہ اور وزیراعظم شہباز شریف بار بار مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے دو ریاستی فارمولے کی حمایت کر رہے ہیں ۔ دفتر خارجہ کے بیورو کریٹس کا کہنا ہے کہ دو ریاستی فارمولا دراصل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کو نسل کا تجویز کردہ ہے لہٰذا اس فارمولے پر عملدرآمد کے مطالبے کا مطلب سیکورٹی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کرانا ہے۔ جب ان بیورو کریٹس سے پوچھا جاتا ہے کہ سیکورٹی کونسل کی قرارداد کے مطابق مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کا قبضہ نا جائز ہے تو پھر آپ اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کرتے تو ہمارے بابو صاحبان اور بیبیاں سرگوشی کے انداز میں کہتے ہیں کہ آپ تو جانتے ہیں کہ خارجہ پالیسی ہم نہیں بناتے ہمیں تو جو حکم آتا ہے ہم اُس پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ میرا سوال یہی ہے کہ وہ کون ہے جس نے دفتر خارجہ کو حکم دیا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر جاری ہونے والے بیان سے اسرائیل کا نام نکال دیا جائے ؟

یہ سوال اُٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ اپنی شہادت سے کچھ ماہ قبل دسمبر2023ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ایک بہت بڑی فلسطین کا نفرنس ہوئی جس میں پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء اور اہل قلم نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں اسماعیل ہنیہ نے ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی اور انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں یہ کہا کہ اگر پاکستان چاہے تو اسرائیل کو غزہ میں جارحیت سے روک سکتا ہے۔ ظاہر ہے اُنہوں نے یہ تو نہیں کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی میزائلوں کا رخ اسرائیل کی طرف کر دے لیکن کچھ علماء نے اس قسم کی باتیں ضرور کی تھیں۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں بولنے کا موقع ملا تو میں نے عرض کیا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عبرت کی مثال اسلئے نہیں بنایا گیا تھا کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت کیوں بنایا؟ ڈاکٹر صاحب سے ناراضی کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ایسا میزائل بنا رہے تھے جس کی پہنچ اسرائیل تک تھی اور اس مسئلے پر مشرف کے ساتھ اُن کی جو گفتگو ہوئی وہ انہوں نے خود مجھے بار باربتائی ۔ میں نے اس کانفرنس میں عرض کیا تھا کہ وہ بات کریں جو قابل عمل ہے اور قابل عمل بات صرف یہ ہے کہ پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں کے تحفظ کیلئے مسلم ممالک کیساتھ مل کر اپنی حکمت عملی بنائے کہ اسرائیل کم از کم اپنی جارحیت بند کردے۔ میری گفتگو کے فوراً بعد اسماعیل ہنیہ کا خطاب تھا اور مجھے اُنہیں کانفرنس سے خطاب کی دعوت دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اسماعیل ہنیہ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن افسوس کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں سے اُن کے قاتل کا نام نکال دیا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے جو ہوم ورک کیا گیا وہ کئی حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود اپنی جگہ پر قائم ہے۔ 2019 ء میں عمران خان وزیراعظم تھے اور انہیں کہا گیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں ۔ ایک میٹنگ میں مجھے بھی مدعو کیا گیا جہاں کئی صحافی اور اینکر خان صاحب کو اسرائیل تسلیم کرنے کے مشورے دے رہے تھے۔ میرے ان تمام ساتھیوں کو اس سے قبل جنرل قمر جاوید باجوہ یہ بریفنگ دے چکے تھے کہ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں میڈیا کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی اہمیت پر بحث مباحثہ شروع کرنا چاہئے۔ میں نے جو باجوہ صاحب کو عرض کیا تھا وہی عمران خان کی خدمت میں عرض کردیا ۔ میں نے کہا کہ اسرائیل کے متعلق جو پالیسی بانی پاکستان قائد اعظم کی تھی وہی آپکی ہونی چاہئے ۔ خان صاحب نے فوراً مجھ سے اتفاق کیا اور معاملہ ختم کردیا۔ اس میٹنگ کے بعد مجھے کہاں سے ناراضی کا سامنا کرنا پڑا اُسے چھوڑیں ۔ میں آج یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا پاکستان کے دفتر خارجہ کی پالیسی علامہ اقبال اور قائد اعظم کی پالیسی کے مطابق ہے؟ پہلے بھی عرض کیا پھر لکھ رہا ہوں کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم ’’ صرف قیام پاکستان کیلئے نہیں بلکہ کشمیر کی آزادی اور فلسطین کے تحفظ پر بھی ایک دوسرے سے متفق تھے۔ علامہ اقبال نے 14 اگست 1931ء کو موچی دروازہ لاہور کے جلسے میں تحریک آزادی کشمیر کا اعلان کیا اور اسی سال دسمبر میں بیت المقدس جا پہنچے جہاں انہوں نے اپنی مشہور نعتیہ نظم ذوق و شوق لکھی جو ’’بال جبریل‘‘میں شامل ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم نے ایک طرف قیام پاکستان کی تحریک شروع کی دوسری طرف اسرائیل کے قیام کو روکنے کیلئے جو جدوجہد کی وہ بے مثال ہے۔آل انڈیا مسلم لیگ نے 1923ء سے فلسطینی مسلمانوں کی سیاسی و مالی امداد شروع کر دی تھی ۔ مسلم لیگ نے بار بار فلسطین ڈے منایا، بار بار فلسطین فنڈ قائم کیا ۔مفتی اعظم فلسطین مفتی امین الحسینی شاعر مشرق اور بابائے قوم دونوں کے بہت قریب تھے ۔ 1937ء اور 1948ء کے درمیان مسلم لیگ نے اپنے ہر سالانہ اجلاس میں فلسطین کی حمایت کی ۔ قائد اعظم نے ایک دفعہ نہیں بار بار تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کیا۔ 9دسمبر 1947کو قائد اعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے امریکی صدر ٹرومین کو خط لکھا اور اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس تقسیم پر کبھی عمل نہیں ہو سکے گا اور یہودیوں کو اس تقسیم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قائد اعظم یہودیوں کے مخالف نہیں تھے وہ ہمیشہ صہیونیوں کی مذمت کرتے تھے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری اجلاس 14 اور 15 دسمبر 1947ء کو کراچی میں ہوا ۔ اس اجلاس میں تقسیم فلسطین کے ساتھ ساتھ صہیونی جارحیت کی مذمت کی گئی ۔ 19دسمبر 1947ء کو قائد اعظم نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے برطانیہ پر بھی تنقید کی اور اُسے فلسطینیوں کے ساتھ نا انصافی کا ذمہ دار قرار دیا۔ قائد اعظم نے تو اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن آج پاکستان میں دفتر خارجہ کیلئے اسرائیل کی مذمت مشکل ہو چکی ہے ۔ پاکستان میں آئین توڑنا آسان ہے، منتخب وزرائے اعظم کو عدالتوں سے نااہل قرار دلوانا اور سیاسی اجتماعات پر فائرنگ کرنا آسان ہے لیکن اسرائیل کا نام لینے سے قومی مفاد پر ضرب پڑتی ہے۔ ریاست پاکستان سے سوال ہے کہ کیا پاکستان واقعی ایک ایٹمی طاقت ہے؟

بشکریہ روزنامہ جنگ