پاکستان میں سب سے منظم جماعتِ اسلامی نے گزشتہ سات دنوں سے لیاقت باغ، راولپنڈی کے باہر دھرنا دے رکھا ہے جس کی قیادت خود اَمیرِ جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن کر رہے ہیں۔ اُن کی طرف سے حکومت کے سامنے آٹھ مطالبات رکھے گئے ہیں جو دُکھی عوام کی آواز معلوم ہوتے ہیں۔ حکومت پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جب تک یہ آٹھ مطالبات منظور نہیں کئے جاتے، دھرنا جاری رہے گا اور وُہ پاکستان کے طول و عرض میں پھیل جائے گا۔ ابھی تک لیاقت باغ کا دھرنا پُرامن ہے۔ دھرنے میں عوام کی بھرپور شرکت کے باعث حکومت نے جماعتِ اسلامی کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ بات چیت کے ادوار بھی چل چکے، مگر کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو حالات کی سنگینی کا صحیح ادراک نہیں اور وُہ مذاکرات کو طول دینا چاہتی ہے تاکہ دھرنے میں شریک لوگ تھک جائیں اور معاملہ رفع دفع ہو جائے۔
ہمارے خیال میں ٹال مٹول کی روش معاملات کو سنوارنے کے بجائے مزید بگاڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔ عوام پر بجلی کے بِل آسمانی بجلی بن کر گر رہے ہیں۔ جناب نواز شریف نے بالکل صحیح تشخیص کی ہے کہ بجلی کے بل صرف غریبوں کا نہیں بلکہ ہر شخص کا ایک اذیت ناک مسئلہ ہے۔ بنگلہ دیش میں بجلی 6 روپے فی یونٹ دستیاب ہے جبکہ پاکستان میں ایک یونٹ 60 روپے کی بلندی تک پہنچ گیا ہے۔ ایک خاتون نے بجلی کا بل پڑھ کر گندے نالے میں چھلانگ لگا دی اور اَپنی جان خالقِ حقیقی کے سپرد کر دی۔ یہ واقعہ بھی پیش آ چکا ہے کہ بجلی بل کے تنازع پر ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کر ڈالا۔ سفیدپوش اپنے گھروں کی چیزیں فروخت کر کے روح فرسا بِلوں کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ سخت عذاب سے آبادی کا 98 فی صد حصہ گزر رَہا ہے جس کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ اگرچہ حکومتِ پنجاب نے اُن خاندانوں کو مفت سولر سسٹم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جو 200یونٹس سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں، مگر اِس نئے نظام کو قائم ہونے میں وقت لگے گا اور مصیبت فوری طور پر ختم نہیں ہو گی۔ یہ تو وفاقی حکومت کو بجلی کے بلوں میں فوری اور غیرمعمولی تخفیف کا راستہ دریافت کرنا اور جلد سے جلد ریلیف کا اعلان کرنا ہوگا۔ مختلف حلقوں کی طرف سے تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک رائے یہ دی گئی ہے کہ حالات کی سنگینی کے باعث چار مہینوں کے لیے 18 فی صد جنرل سیلز ٹیکس اور 7 فی صد انکم ٹیکس ختم کر دیا جائے، تو فوری طور پر بلوں میں 25 فی صد کمی آ سکتی ہے۔ اِس کے علاوہ اَشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ختم کر دی جائیں اور بجلی چوری اور ضیاع پر قابو پا لیا جائے، تو سالانہ 537؍ارب روپے کی بچت کر کے غریبوں پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ اِن تمام تجاویز کا فوری طور پر جائزہ لے کر حکومت کو ایک ایسے ریلیف کا اعلان کرنا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے سہولت کا باعث بنے۔
یہ وقت محض طعن و تشنیع کے تیر چلانے کے بجائے اُس مہیب صورتِ حال سے نمٹنے کا ہے جس نے ہماری قومی بقا کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ ہم پر بیرونی قرضوں کا بار اِس قدر بڑھ چکا ہے کہ اُنہیں اُتارنا اور اُن کا سود اَدا کرنا ہمارے لیے تقریباً محال ہو چکا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کے اعصاب جواب دیتے جا رہے ہیں، اگرچہ کسی نہ کسی سطح پر اصلاحِ احوال کی کوششیں جاری ہیں۔ دراصل پاکستان ایسے قدرتی وسائل اور سخت جان اَفرادی قوت سے مالامال ہے کہ تمام تر کوتاہیوں کے باوجود اِس میں عالمی طاقت بن جانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اِس حقیقت کی حال ہی میں ہنگری کے وزیرِاعظم وکٹر اوربن نے واضح پیشین گوئی کی ہے اور تفصیل سے بتایا ہے کہ اب طاقت کا محور مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی جگہ روس اقوام کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور اَپنے خِطے میں پاکستان ایک عالمی طاقت بننے والا ہے۔
جماعتِ اسلامی کی قیادت نے 25 کروڑ شہریوں کے دکھوں کا مداوا تلاش کرنے کے لیے دھرنے دینا شروع کیے ہیں اور وُہ مزاحمت کی سب سے مضبوط علامت بن گئی ہے۔ اِس پر پی ٹی آئی اپنی خفگی کا اظہار کر رہی ہے، حالانکہ اُسے جماعتِ اسلامی سے تعاون کرنا اور حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہیے۔ حکومت نے کسی قدر دَھرنوں کا اثر قبول کیا ہے اور اُمید کی جا سکتی ہے کہ اووربلنگ اور آئی پی پیز کی ستم رانیوں کا مداوا تلاش کر لیا جائے گا۔ حکومت نے اگر کوتاہی برتی، تو اُسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی، کیونکہ عوام کا غیظ و غضب بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اُن کے اندر پھیلی ہوئی بےچینی بغاوت کا رنگ اختیار کر سکتی ہے۔ اِس گمبھیر صورتِ حال میں ہمارا مشورہ یہ ہو گا کہ دھرنوں کا سلسلہ جلد سے جلد ختم کیا جائے، کیونکہ اُن کے بطن سے نت نئے حوادث بھی جنم لے سکتے ہیں۔ بلاشبہ جماعتِ اسلامی پورے خلوص کے ساتھ عوام کو رِیلیف دلانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور نومنتخب امیرِ جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ وہ ایک انقلابی قائد کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اُن کے لیے یہی بہتر ہو گا کہ وہ دَھرنوں کا سلسلہ جلد سے جلد ختم کرنے کی حکمتِ عملی اپنائیں تاکہ زندگی معمول پر آ جائے۔ سیاسی اور جمہوری قوتوں کے تعاون سے عوام کے جائز مطالبات منوانے چاہئیں۔ ہزاروں کارکنوں کی صلاحیتوں اور توانائیوں کو لمبے عرصے تک دباؤ میں رکھنا کسی طور مناسب نہیں ہو گا، کیونکہ اِس سے تعمیری اور مثبت کام بلاشبہ متاثر ہوتے ہیں اور عوامی طاقت کا خمار چَین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔ جماعتِ اسلامی جن آٹھ مطالبات کیلئے جدوجہد کر رہی ہے، دراصل پاکستان کو اُن سے بھی بڑے اور ہولناک سوراخوں کا سامنا ہے۔ ہمارے دوست جناب جاوید نواز جو قومی اور عالمی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں، اُنہوں نے ہمیں بارہ سوراخوں کی تفصیلی فہرست بھیجی ہے جن کا آئندہ کالموں میں ذکر کیا جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ