اک گناہ اور سہی! : تحریر سہیل وڑائچ


ہم تو ازلی پاپی ہیں تضاد ستانیوں کے دامن میں گناہوں کا بہت بڑا انبار موجود ہے کیا افغانستان، کیا مشرقی پاکستان اور کیا اندرون تضادستان ہر جگہ ہماری غلطیوں، گناہوں اور جرائم کی داستان بکھری ہوئی ہے نہ سیاستدان فلاحی مملکت بناسکے نہ مقتدرہ چار مارشل لاؤں اور مسلسل مداخلت کے باوجود ملک کو کوئی راستہ دینے میں کامیاب ہوسکی نہ عدلیہ ملک میں آئین کی حکمرانی قائم کرسکی اور نہ ہی ہم تضادستانی کبھی اس قابل ہوسکے کہ ملک کی تقدیر بدل سکیں جب ہم گناہوں کا اتنا ذخیرہ کرچکے ہیں تو اک گناہ اور سہی، پاپولر خان کو راستہ دیں اور اقتدار میں لائیں۔ یہ گناہ بھی کرکے دیکھ لیں پہلے ہمیں اپنے گناہوں سے جوفائدے اور نقصان ہونے تھے وہ ہوکر رہے، اب بھی’’ کٹا کٹی‘‘ نکالیں اور تضاد ستانی حلق میں مسلسل پھنسی ہوئی ہڈی کو نگل لیں۔ بادل نخواستہ ہی سہی مجبوری میں ہی سہی، کڑوے گھونٹ جیسا ہی سہی، چھچھوندر کو کھانے جیسا ہی سہی، مقتدرہ کو ناپسند ہی سہی، اسکی ماضی کی حکومتی کارکردگی صفر ہی سہی۔ ان سب خرابیوں کے باوجود وہ مقبول ہے اور مقبولیت کا بخار تب تک نہیں اترے گا جب تک زمام اقتدار اسے نہیں ملے گی اور وہ کامیاب ہوا یا ناکام ہوا دونوں صورتوں میں تضادستان کے اندر جاری مدوجزر کو سکون آجائے گا۔ اک گناہ اور سہی، واحد سیاسی حل ہے باقی حل خونیں پر تشدد اور تکلیف دہ ہیں ۔ہم گناہوں کا کفارہ تو ادا کرلیں گے جرائم کا مداوا کیسے کریں گے؟

ہم مانیں یا نہ مانیں ہم اپنے آپ کو بری الذمہ اور ہر دوسرے کو تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تضادستان کو اس جگہ تک لانے میں ہر طبقے کا برابر کا ہاتھ ہے ۔جرنیلوں نے مارشل لالگائے تو منصفوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہم عوام میں سے کئی مٹھائیاں بانٹتے رہے۔ کئی سیاستدان مارشل لاؤں کی کوکھ سے ہی پیدا ہوئے ۔ہم کئی صحافی بھی مارشل لاؤں کے نفاذ اور اسمبلیوں کی غیرآئینی تحلیل پر تالیاں پیٹتے رہے۔ پڑھے لکھے بیورو کریٹ حکمرانوں کے غیرآئینی اور غیرقانونی احکامات کو بجا لاتے رہے۔ ہماری خاموش اکثریت ہمیشہ سے تن مردہ کی طرح غیرآئینی، غیرجمہوری اور غیرقانونی کاموں پر چپ سادھے رہی۔ ہاں چند سر پھرے سیاستدان بعض حوصلہ مند جج، کئی آزاد صحافی اور عوام کے بہت تھوڑے حصے نے ان جرائم پر آواز بلند کی جو آج تاریخ میں سنہرے حروف سے درج ہے مگر باقی ہم سب تضادستانی جو شریک جرم تھے ان میں سے کوئی اقرار جرم تک کرنے کو تیار نہیں ۔گناہوں کی کونسی اس دنیا میں کوئی سزا ملنی ہے؟ اقرار کرلیں تو شائد راستہ سیدھا ہوجائے مگر نہ ایسا ماضی میں ہوا ہے اور نہ اب اسکا امکان ہے۔

میرے کئی عالم فاضل صحافی دوستوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اس ناہنجار لفافی نے ایک دن لکھا کہ ’’کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا‘‘ جس میں کہا کہ عمران کو لانا سیاسی مجبوری ہے تو پھر دوسرے دن اسکے بالکل الٹ ’’سو سنار کی اور ایک لوہار کی‘‘ کیوں لکھا؟۔ بقول انکے یہ تو کھلا تضاد ہے تو ان دوستوں کے لئے عرض ہے کہ کڑوا گھونٹ پینے کے بارے میں کالم میری رائے اور میرا تجزیہ تھا جبکہ سو سنار والا کالم دوسری جانب کی انفارمیشن تھی کہ مقتدرہ اور مخلوط حکومت کیا سوچ رہے ہیں ۔دنیا کی تیز رفتاری نے ہمارے پڑھنے والوں کو بھی دو لائنیں پڑھ کر، دیکھ کر اس پر رائے قائم کرنے کی عادت ڈال دی ۔پورا کالم پڑھ لیں تو مافی الضمیر اور آپکو اسکا پس منظر بھی سمجھ آجائے گا۔ سو سنار والا کالم دراصل ایک نامہ بر اور ناہنجار لفافی کے درمیان گفتگو کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ صحافی دوستوں کو تو کم از کم سیاق و سباق کو دیکھ لینا چاہئے باقی قوم تو لفافی، کفر اور غدار کے فتوے لگانے میں دیر نہیں لگاتی کم از کم ہم صحافی تو فتوے صادر کرنے سے پرہیز کریں۔

ناہنجار لفافی کو علم ہے کہ مقتدرہ اور مخلوط حکومت کے اتحادی ’’اک گناہ اور سہی‘‘ کی سوچ کے شدید مخالف ہیں اور وہ اس گناہ بے لذت کا رسک لینے کو تیار نہیں لیکن اسکے باوجود مجھے یہ کہنے دیجئے کہ واحد پرامن سیاسی راستہ یہی ہے جو کڑوے گھونٹ والے کالم میں بیان کیا تھا۔ سو سنار والے کالم میں جن اقدامات کی اطلاع دی تھی وہ زیر عمل آچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد سے روکنے کے لئے پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے اور خدشہ یہ ہے کہ سیاسی ججوں اور انتہاپسند انصافیوں کے خلاف مزید اقدامات آئیں گے ۔ناہنجار لفاضی کو ان اقدامات سے شدید اختلاف ہے ان اقدامات سے سیاسی بحران مزید بڑھے گا اور حالات مزید خراب ہونگے۔

ناہنجار لفافی کی رائے میں آگے بڑھنے کا راستہ پارلیمان کے ذریعے نکل سکتا ہے جہاں محمود اچکزئی بھی موجود ہیں اسد قیصر، عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر بھی متحرک ہیں دوسری طرف سے اسپیکر ایاز صادق اور نونی فاختاؤں کو شامل کیا جاسکتا ہے،اعتماد سازی کے لیے خان کو رہا کردیا جائے اور اگر حکومت کو ڈر لگتا ہے تو بنی گالا میں نظربند کردیا جائے قومی اسمبلی میں بیٹھ کر سیاسی رولز آف دی گیم طے کئے جائیں، مقتدرہ بھی اس پرامن حل کی پس پردہ رہ کر سرپرستی کرے۔ اس حوالے سے عمران خان کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا راستہ کھولنا چاہئے اور مخلوط حکومت کو بھی مقتدرہ سے مشورہ کرکے عمران خان اور انکی جماعت کے لئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔

سیاست کا مقابلہ سیاست اور دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گردی سے کریں دہشت گردی سیاست سے نہیں قانون کی عملداری سے ختم ہوگی کسی کی سیاست کو کمزور کرنا ہے تو اس سے بہتر سیاست کی جائے۔ تاریخ کا مطالعہ تو یہی بتاتا ہے کہ سیاست کو زور زبردستی سے ہینڈل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دنیا کا نازک ترین اور حساس ترین معاملہ ہے اسے صرف اور صرف دانش مندی اور عقل سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اہل سیاست اور اہل اقتدار دونوں اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کریں تو بحران کا حل ممکن ہے عمران خان تھوڑا پیچھے ہٹے ہیں مگر اتنا نہیں کہ کسی دوسرے کو Space مل سکے۔ دوسرے بھی تھوڑا سا پیچھے ہٹیں فی الحال بے شک رعایتیں نہ دیں ارادہ تو ظاہر کریں تاکہ فضا کی کشیدگی ختم ہو۔ یہ کشیدگی سیاست سے نکل کر کاروبار اور لوگوں کی عام زندگی میں مایوسی لا رہی ہے۔ سیاست دانوں اور مقتدرہ کا فرض اولین ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے لوگوں کے لئے امید پیدا کریں کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا کررہا ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہے۔

مجھے خدشہ ہے کہ کوئی بھی گناہ گار ’’اک گناہ اور سہی‘‘ کو تسلیم نہیں کرے گا مگر باعزت، پرامن جمہوری اور آئینی راستہ یہی ہے نہ مان کر بھی آپ اک گناہ اور سہی کا ارتکاب کریں گے ،اسے مان لیں تو شائد اس بار نتیجہ مختلف نکل آئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ