مسلسل چار دنوں سے یہ طے کرلینے کے بعد ہی سوتا ہوں کہ صبح اٹھ کر کون سے موضوع پر لکھنا ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو مگر احساس ہوتا ہے کہ نام نہاد حالاتِ حاضرہ پر لکھنے والے کو فوری طورپر ایک اور موضوع پر تبصرہ آرائی کرنا ہوگی۔ بدھ کی صبح اٹھ کربھی سونے سے قبل طے کئے موضوع کو نظرانداز کرنا پڑا ہے۔
بدھ کی صبح آنکھ کھلی تو واٹس ایپ کے ذریعے کئی دوستوں سے اطلاع موصول ہوئی کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو صیہونی ریاست نے تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنادیا ہے۔ بھونچکا کر اٹھ گیا۔ تازہ ترین جاننے کے لئے فی الوقت دنیا بھر میں کبھی ٹویٹر اور اب ایکس کہلاتے پلیٹ فارم کے مقابلے میں کوئی اور ذریعہ موجود ہی نہیں ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے مگر ہماری سرکار نے یہ طے کررکھا ہے کہ مذکورہ پلیٹ فارم ہمارے سادہ لوح عوام کو فیک نیوز کی بھرمار کے ذریعے فسادی بنارہا ہے۔ ریاست نے لہذا سخت گیر والد کی طرح ہم کم عقلوں کو مفسدانہ خیالات سے بچانے کے لئے ایکس کی بندش کا فیصلہ کیا۔ مذکورہ فیصلہ ہونے کے باوجود اس پر کامل عمل درآمد نہیں ہورہا۔24گھنٹوں میں طویل وقفوں کے بعد تھوڑی دیر کے لئے اسے کھول دیا جاتا ہے۔ میری بدقسمتی کہ ٹویٹر تک رسائی کے ان وقفوں میں شاذہی فائدہ اٹھاسکتا ہوں۔
اسماعیل ہنیہ کی ڈھٹائی کی حد تک جارحانہ ٹارگٹ کلنگ کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے کمرے میں نصب ٹی وی کا ریموٹ دبانا پڑا۔ قوم کو ہمہ وقت باخبر رکھنے کے دعوے دار مقامی چینل بریکنگ نیوز کے پھٹے چلاتے ہوئے بھی تاہم چند سطروں کی جگالی میں مصروف نظر آئے۔ وطن عزیز عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہونے کے باوجود امور مشرق وسطی پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں سے محروم ہے۔ اخبارات اور ٹیلی وژن امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی چلائی خبررساں ایجنسیوں (اے پی، رائٹراور اے ایف پی) ہی سے خبر حاصل کرتے ہیں۔
غور کریں تو شرم اس امر پر بھی محسوس کرنا چاہیے کہ اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ والی خبر تہران میں وقوع پذیر ہوئی۔ ایران ہمارا قدیمی ہمسایہ ہے۔ اس کی زبان تھوڑی کوشش کے بعد بآسانی سمجھی جاسکتی ہے۔ مجھے تاہم یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے کسی صحافتی ادارے کا کوئی نمائندہ برسوں سے تہران میں مقیم ہوئے ہمیں اس ملک کے معاملات کے بارے میں آگاہ رکھتا تھا یا اِن دنوں بھی رکھ رہا ہے۔ اپنی کوتاہیوں پر توجہ دینے کے بجائے نہایت منافقت سے ہم امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی چلائی ایجنسیوں کے ذریعے آئی خبروں کو فیک نیوز نہ بھی پکاریں تو کم از کم اس مبینہ پراپیگنڈہ مہم کا اہم ہتھیار قرار دیتے ہیں جس کا مقصد امت مسلمہ کو غلط خبروں سے گمراہ کرنا ہے۔
اصل موضوع سے مگر بھٹک رہا ہوں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے جو حماس کے خلاف امریکہ جیسے حلیف ممالک کے ذریعے دوستانہ دباؤ کے باوجود اکتوبر2023 سے جاری جنگ میں کوئی وقفہ دینے کو بھی آمادہ نہیں ہورہا تھا غزہ کی پٹی تک محدود رہنے کے بجائے جارحیت کے دائرے کو خوفناک حد تک وسیع تر کردیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ حال ہی میں منتخب ہوئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک ہونے تہران تشریف لائے تھے۔ مذکورہ تقریب میں پاکستان کے ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار صاحب کے علاوہ ایران کے کئی دوست ممالک کے اہم ترین نمائندے بھی شریک تھے۔
تقریب حلف برداری کے اختتام کے بعد منگل اور بدھ کی درمیانی رات اسماعیل ہنیہ کی تہران میں قیام گاہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حملے اور ہنیہ کی شہادت کا اعلان ایران کی پاسدارانِ انقلاب نے کیا ہے۔ حماس کے سرکاری ترجمان نے اس کی تصدیق کردی۔یہ کالم لکھنے تک اسرائیل نے مگر ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ اسرائیل عموما غیر ملکوں میں جارحانہ ڈھٹائی سے اپنی سلامتی کے دشمن ٹھہرائے افراد کے پراسرار انداز میں ہوئے قتل کی ذمہ داری اٹھانے سے گریز کرتا ہے۔ بڑھک بازی اس کا شیوہ نہیں۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق دشمن کو کنفیوژ رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ مگر ایسا واقعہ ہرگز نہیں جس کے بارے میں اسرائیل کندھے اچکا کر لاتعلقی کا ڈرامہ رچائے۔ ہنیہ کی شہادت تہران میں ہوئی ہے اور اس کے لئے جو دن چنا گیا اس روز ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری منعقد ہوئی تھی۔ سکیورٹی کے تناظر میں ایک اہم ترین دن کو ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے لئے چنتے ہوئے صہیونی ریاست نے درحقیقت دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس کے جاسوس ادارے تہران کے ہر کونے کھدرے پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے حربوں اور ہتھیاروں پر کامل گرفت کے حامل بھی ہیں جن کی بدولت ٹارگٹ کو اس کی قیام گاہ ہی میں قتل کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ نو منتخب ایرانی صدر معتدل مزاج تصور ہوتے ہیں۔ ان کے انتخاب سے امید باندھی جارہی تھی کہ وہ ایران کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ بتدریج صلح جویانہ رویہ اختیار کرنے کو مائل کریں گے۔ ان کی تقریب حلف برداری کے دن ہی اسرائیل نے مگر انتہا پسندی کی بھی انتہا کو چھوتی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چند ہفتے قبل ایران نے بھی اسرائیل کے قلب تک اپنی رسائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ تل ابیب سمیت کئی اسرائیلی شہروں پر راکٹوں کی برسات ہوئی۔ دوررس میزائل اگرچہ اسلحہ سے لیس نہیں تھے۔ ان کی برسات نے مگر اسرائیل کو یہ پیغام دیا کہ اس کا تقریبا ہر شہر ایران کے دور رس میزائل کی زد میں ہے۔ مذکورہ پیغام کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایران کے انتہا پسند گروہ اپنی ریاست سے اب یہ تقاضہ کریں گے کہ اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اسرائیل نے جس رسائی کا پیغام اجاگر کرنے کی کوشش ہے اس کا بدلہ لیا جائے۔ تہران فوری ردعمل سے گریز کاعادی ہے۔ نظریاتی ریاستوں کو مگر اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لئے بسااوقات صبر کو بزدلی کا مترادف بنانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہ سوچتے ہی میرے ہاتھ پائوں کانپ رہے ہیں کہ ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے ردعمل میں ایران نے اسرائیل تک اپنی رسائی ثابت کرنے کی ٹھان لی تو جنگ محض ایران اور اسرائیل تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ لبنان اور شام بھی اس کی آگ سے محفوظ نہیں رہیں گے۔
پاکستان جیسے ممالک میں ایران اور اسرائیل کے مابین کھلی یا حلیفوں کے ذریعے لڑی جنگ مہنگائی کے عذاب کو شدید تر بناسکتی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت انتہاؤں کو چھونا شروع ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں آنے والی کئی اشیا کی کمیابی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ یمن میں حوثی ملیشیا ہمارے خطے میں آنے والے بحری جہازوں کو اکثر میزائلوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ مختصرا نیتن یاہونے ناقابل یقین جارحیت کے ذریعے حماس /اسرائیل جنگ کو مشرق وسطی کے وسیع تر حلقوں تک پھیلادیا ہے۔ ویسے ہی حالات پیدا کر دئیے ہیں جو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے ابتدائی مراحل میں منظر عام پر آئے تھے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت