آزادی کا مقدس مہینہ اگست ہر پاکستانی کو مبارک۔
پاکستان میں 1985ءسے جو خاندان اور ادارے مسلسل اور باری باری حکومت کرتے آرہے ہیں۔
آج 2024 میں بھی وہی بر سر اقتدار ہیں۔
ان 39 سال میں جو بھی پالیسیاں رہی ہیں۔ ان پرآج کے حکمرانوں سے سوال تو ہوسکتا ہے کہ کیا 39 سال پہلے ان کا روڈ میپ یہی تھا۔ کیا وہ اسی افراتفری۔ دہشت گردی۔ معاشی ناہمواری۔ سفارتی تنہائی کی توقع کررہے تھے۔ کیا انہیں یہ اندازہ تھا کہ 2024ءمیں پاکستان کی آبادی 24کروڑ سے تجاوز کرجائیگی اور دس کروڑ سے زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے ہونگے۔
ان 39سالوں میں ہمارے زوال کا سفر بہت ہی تیزی سے جاری رہا ہے۔ اور اب زیادہ سرعت سے اختیار کرگیا ہے۔ 1985ءمیں ڈالر صرف 15روپے کا تھا۔ اب 300روپے کے قریب ہے۔ کیا باری باری حکومت کرنے والی ان پارٹیوں نے اور اداروں نے کبھی کوشش کی کہ روپے کی اس تیز رفتار تنزلی کو روکا جائے ۔ بیشتر سیکٹروں میں پستی ہی پستی ہے۔ خواندگی۔ شرح پیدائش۔ مذہبی شدت پسندی۔ عام جرائم۔ سائبر کرائم۔ سفید کالر وارداتیں۔ انسانی اسمگلنگ۔ رشوت۔ سفارش۔ کوئی جرم بھی تو نہیں رکا ہے۔1985میں ملک کی آبادی نو کروڑ71لاکھ تھی۔ ہر سال بڑھتے بڑھتے اب 24کروڑ ہے۔ قریباً 2½گنا۔1985 سے پہلے غربت 16فی صد تھی۔ پانچ چھ سال میں اتنی تیزی سے غربت بڑھی کہ91-90 میں 32 فی صد تک چلی گئی اب 40فی صد ہے۔
1985 سے 2024ءتک۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی سے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی تک دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ ٹیکنالوجی جدید سے جدید تر ہوگئی۔ معیشت میں نئے نئے رجحان آتے گئے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں انسانی زندگی میں کتنی آسانیاں فراہم کردی گئیں۔ دریاؤں پر کتنے نئے ڈیم بن گئے۔ کتنی نئی یونیورسٹیاں۔ نئی ٹیکنیکل درسگاہیں۔ اپنی اپنی مملکت کیلئے تربیت یافتہ ٹیکنو کریٹ تیار کرتی رہیں۔ بھارت سمیت کتنے ملکوں میں زیر زمین ریلوے متعارف کردی گئی۔ ماس ٹرانزٹ(بڑے پیمانے پر سفر کے وسائل) کے انتظامات کیے گئے۔ دریاؤں سمندروں پر نئے پل۔ ریلوے لائنوں کی مزید مقامات تک توسیع۔ فضائی سفر کی سہولتیں۔ قرضوں کی واپسی۔ بلکہ کئی ملک تو دوسروں کو قرضے دینے لگے۔
آبادیاں پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ وسائل اللہ تعالیٰ نے عنایت کیے ہوتے ہیں ۔ نئی ریاستیں وجود میں آتی ہیں۔ ریاست اور وہاں کے باشندوں کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے۔ جس کے تحت ریاست اپنے لوگوں کی جان اور مال کے تحفظ۔ نقل و حرکت کے لیے آرام دہ محفوظ ٹرانسپورٹ ۔ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے شعائر کے مطابق عبادت کی سہولت۔ ہر پیدا ہونے والے کے روزگار کی ضمانت۔ دولت کی منصفانہ تقسیم۔ تمام شہریوں کے لیے یکساں نظام تعلیم۔ قانون کا نفاذ سب کے لیے برابر۔ موسمیات کی تبدیلیوں کے پیش نظر اپنے گلیشیروں۔ جنگلوں۔ دریاؤں کی حفاظت ۔ مفت علاج معالجے کے معیاری اسپتال۔ کھانے پینے کی چیزوں کی مسلسل فراہمی۔پارلیمانی سسٹم میں ہر علاقے کے دانشمندانہ نمائندگی۔ اسمبلیوں میں ایسے لوگ رکن بنیں۔ جو اپنے اپنے حلقے کی گزشتہ صدیوں سے واقف ہوں اور آئندہ صدیوں کے امکانات سے باخبر۔ یہ سہولتیں جب اس خطے کے مردوں۔ خواتین۔ ماؤں۔ سہاگنوں۔ بھائیوں بہنوں۔ بیٹوں بیٹیوں۔ نواسوں نواسیوں اور بزرگوں کو دی جاتی ہیں تو ہر کمانے والے فرد سے محصولات وصول کیے جاتے ہیں۔ ریاست کی اپنی آمدنی کوئی نہیں ہوتی ہے۔ وہ تاجروں۔ صنعتکاروں۔ زمینداروں۔ تنخواہ دار ملازمین سے ایک مناسب شرح پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ ان کے بدلے ہی ہمیں یہ سہولتیں ملتی ہیں۔
1985 سے اب تک حکومت کرنے والی پارٹیوں اور اداروں سے یہ تفصیلات دریافت کی جاسکتی ہیں کہ آج جن شعبوں میں انحطاط ہے۔ اسے یہ حکمران طبقے کیوں نہیں روک سکے۔ 1۔ کئی ہزارارب روپے کے قرضے کیوں اس عرصے میں ادانہیں ہوسکے۔ مزید سے بچنے کی کوئی تدبیر کیوں نہیں کی گئی۔ 2۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس عرصے میں کوئی بڑا اسپتال قائم کیوں نہیں کرسکیں۔ جو بڑے اسپتال پہلے سے تھے۔ ان میں بہتری کی بجائے ابتری کیوں آئی۔ 3۔ ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی اس دور میں کمزور کیوں ہوتی رہی۔ 4۔ کوئی بڑی اسٹیل مل کیوں نہیں بنی۔ پہلے والی مسلسل خسارے میں کیوں جاتی رہی ۔5۔قومی ایئرلائن پی آئی اے بھی مسلسل نقصان میں کیوں جاتی رہی۔ 6۔غریب لوگوں کا وسیلۂ سفر ریلوے بھی مسلسل خرابی سے دوچار کیوں رہا۔7۔شہروں کے اندر اور شہر بہ شہر بسوں کا سلسلہ بھی مہنگا کیوں ہوتا رہا۔ 8۔ یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھی ہے ۔ لیکن دنیا میں بہتر درجہ حاصل کرنے والی یونیورسٹیاں نہیں بن سکیں۔9۔ پاکستان کی سب سے بڑی کراچی یونیورسٹی مسلسل ابتر کیوں ہوتی رہی۔10۔ غربت کی لکیر سے نیچے نادار ہم وطنوں میں اضافہ کیوں ہوتا رہا۔11۔ اس عرصے میں ملک میں مینو فیکچرنگ محدود کیوں ہوئی۔ فیکٹریاں دوسرے ملکوں میں کیوں شفٹ ہوئیں۔12۔ ریکوڈک کا سونا تانبا کیوں نہ نکالا جاسکا یہ پاکستان کی آمدنی میں اضافہ کیوں نہ کرسکا۔13۔ زراعت میں غلّے۔ پھلوں۔ سبزیوں میں ہم خود کفیل کیوں نہیں ہوئے۔ برآمد کی بجائے زرعی پیداوار درآمدکیوں ہوئی۔14۔ آبادی کی شرح میںکمی کیوں نہیں ہوئی۔15۔ ساری آبادی کو پینے کا صاف پانی کیوں فراہم نہیں کرسکے۔16۔ 60 فی صد نوجوان آبادی کے لیے روزگار کے مواقع کیوں نہیں بڑھائے جاسکے۔17۔ چھوٹی صنعتیں لگاکر دستکار خاندانوں اور ہنر مندوں کو معیشت مستحکم کرنے کا موقع کیوں نہیں ملا۔ 18۔ کسی دریا پر کوئی بڑا ڈیم اس عرصے میں کیوں نہیں بن سکا۔19۔ ڈیری مصنوعات ملک کی معیشت میں استحکام کا سبب کیوں نہیں بن سکیں۔20۔ اس عرصے میں ہم کوئی دوسری بڑی اسلامی سربراہی کانفرنس 1974 جیسی کیوں منعقد نہیں کرسکے۔ 21۔ عدلیہ دنیا کی درجہ بندی میں نیچے ہی کیوں جارہی ہے۔ 22۔ شہری امور میں غیر سیاسی اداروں کی مداخلت کم کیوں نہیں ہوسکی۔23۔ بلوچستان میں محرومی کا احساس متعدد انتخابات کے باوجود کیوں کم نہیں ہوا۔24۔ الیکشن کمیشن اپنا اعتبار کیوں کھوتا رہا ہے۔ 25۔ پولیس سے شہریوں کا اعتبار کیوں اٹھتا رہا ہے۔26۔ عام شہریوں کی زندگی آسان ہونے کی بجائے ہر روز پہلے سے دشوار کیوں ہورہی ہے۔ 27۔ مضبوط بلدیاتی ادارے کیوں قائم نہیں ہونے دیے گئے۔
اس وقت واہگہ سے گوادر تک شہریوں کی اکثریت آپ کی 39 سالہ حکمرانی کے باوجود آپ کے ہاتھوں میں اپنے آپ کو غیر محفوظ کیوں سمجھتی ہے۔ اتنے تجربہ کار۔ جہاندیدہ۔ قائدین ۔ان کے ساتھی وزراء کی موجودگی میں بھی نئی قیادت کی تلاش کیوں رہتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ