خیر گزری کہ ہمارے خستہ مکان کی بنیاد ابھی قائم ہے، دیوار، دالان اور دریچوں کے درو بست میں تزلزل کے آثار بہرحال نمودار ہو چکے۔ غیر ملکی قرض 130 ارب ڈالر کو جا پہنچا۔ جی ڈی پی کا کل حجم340 ا رب ڈالر ہے۔ گرمی کی شدت نے زمین و آسماں زیر و زبر کر رکھے ہیں۔ ایسے میں بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 65 روپے کو جا پہنچی۔ فی کس آمدنی 1680 ڈالر ہے جو بھارت اور بنگلہ دیش سے بہت پیچھے ہے۔خیال رہے کہ بھارتی روپے میں ڈالر 84روپے، بنگلہ دیش میں 118ٹکا اور پاکستان میں279 روپے کے برابر ہے۔ 2000ء کے بعد پیدا ہونے والوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ تمام تر اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود 1998 ء تک بھارت اور پاکستان معاشی طور پر ایک ہی کیٹگری میں شمار ہوتے تھے۔ بھارت ہم سے چھ گنا بڑا ملک ہے۔ اس صدی کے آغاز میں ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کم و بیش یہی نسبت تھی۔ جولائی 2024ء میں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 670 ارب ڈالر کو جا پہنچے ہیں اور ہم ابھی14 ارب ڈالرکے آس پاس مٹر گشت کر رہے ہیں۔اس میں کچھ حصہ اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کے پاس ہے اور ادھار کے کچھ نمائشی زیورات کاروباری آرائش کے لیے سجا ئے گئے ہیں۔ ہم نے گزشتہ پندرہ برس میں مدرسے کے طالب علموں کی طرح ہل ہل کر سبق یاد کیا ہے کہ 2008 ء سے 2018 ء تک ہمارے ملک میں نامطلوب سیاست دانوں کی لوٹ مار کے بدترین برس تھے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس دوران پاکستان کے جی ڈی پی کا حجم 200 ارب سے بڑھ کر 376 ارب ڈالر کو جا پہنچا۔ گویا تب ہماری معیشت کا حجم آج سے 36 ارب ڈالر زیادہ تھا۔ اس معاشی تباہی کا بوجھ غریب شہری پر لادا گیا ہے۔ معیشت کی مبادیات کے مطابق اس معاشی بحران میں ایک قلیل گروہ نے گنگا نہائی ہے۔ گزشتہ چھ برس سے ملک بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ 2018ءسے شروع ہونے والے ناٹک کا ایک کردار ان دنوں جیل میں ہے اور کچھ کردارنیا چولا پہن کر اسٹیج پر مکالمے بول رہے ہیں۔ پس منظر میں یونانی تمثیل کے کورس کی صدا مسلسل سنائی دے رہی ہے۔اس اندرسبھا میں کچھ مسخرے بھی وقفے وقفے سے تماشائیوں کی دل بستگی کا سامان کرتے ہیں۔
اس المیہ کھیل میں شیکسپیئر کے طربیہ کرداروں ہی کی طرح یہ مسخرے ہرگز بے ضرر نہیں ہیں۔ یہ الف لیلوی کردار مہمانوں کے روپ میں مجرم ہیں۔ نومبر 2016 ء میں فوج کے سربراہ کا انتخاب درپیش تھا ۔ ساجد میر نامی ایوان بالا کے ایک رکن نے ممکنہ فوجی سربراہ کے بارے میں مذہبی تنازع کھڑا کر دیا۔ کسی نے ان کے منہ میں دانت نہیں گنے۔ ستمبر 2017 ء میں لاہور کے ایک ضمنی انتخاب میں دو نئی سیاسی جماعتیں اچانک منظر پر ابھریں ۔ ایک کو ’ملی مسلم لیگ‘ اور دوسری کو ’تحریک لبیک‘ کا عنوان دیا گیا۔ ان جماعتوں کے دفاتر، انتظامی تام جھام اور مالی وسائل صاف چغلی کھاتے تھے کہ یہ کٹھ پتلیاں سیاسی بساط پر نئے مہرے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے بالترتیب سات ہزار اور پانچ ہزار ووٹ حاصل کیے۔ اکتوبر 2017 ء میں تحریک لبیک ایک قانونی مسودے میں مبینہ تبدیلی کا عذر لنگ تراش کے فیض آباد جا پہنچی۔ اس مجمع نے وہ طوفان اٹھایا کہ وزیر قانون مستعفی ہو گئے ۔ نواز شریف اور خواجہ آصف کی سرعام توہین کی گئی، جاوید لطیف پر تشدد ہوا ، چوہدری نثار کے گھر پر حملہ ہوا۔ وزیر داخلہ احسن اقبال قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ اسی فیض آباد دھرنے کے بارے میں قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ آج تک ان کے گلے میں آویزاں ہے۔ اکتوبر 2018 ء میں تحریک لبیک پھر سڑکوں پر نکلی ۔ پیرافضل قادری نے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ان کے ساتھی ججوں کے ذاتی عملے کو اکسایا کہ ان ججوں کو قتل کر دیا جائے۔ تب عمران خان وزیراعظم تھے۔ وزیر قانون فواد چوہدری نے مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔اسکے بعد بھی گاہے گاہے احتجاج ہوتے رہے ۔پولیس اہلکار جانیں گنواتے رہے۔ انہیں اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ 14 اپریل 2021ء کو یہ جماعت تشدد کے پے در پے واقعات کے بعد کالعدم قرار دیدی گئی۔ اواخر 2021ء میں ایک ریاستی منصب دار کے پیشہ ورانہ تبادلے کا’ اہم مسئلہ‘ درپیش تھا۔ تحریک لبیک پھر بروئے کار آئی۔ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنیکا مطالبہ تھا۔ آٹھ پولیس اہلکار جان سے گئے اور رات کے اندھیرے میں اقتدار کے تین نادیدہ کرداروں میں ہونیوالے ’معاہدے‘ کے نتیجے میں تحریک لبیک سے پابندی اٹھا لی گئی۔ سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر ،جڑانوالہ میں اگست 2023 ء کے فسادات اور سرگودھا میں ایک مسیحی شہری کو زندہ جلانے کے واقعات پر انگلیوں کے نشان ہی نہیں، مجرموں کے چہرے ، ہاتھ اور اعلانات تک معلوم ہیں۔ ان دنوں پھر سے’ بوئے خوں ہے ایاغ میں گل کے‘۔تحریک لبیک پھر اسلام آباد پہنچی ہے۔ وہی فیض آباد چوک اور وہی اشتعال انگیزی۔اس دفعہ تو جماعت اسلامی نے بھی انگڑائی لی ہے جو اسمبلی میں ایک بھی نشست نہیں رکھتی۔ ’ گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں‘۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی، وہ اخبار میں شائع نہیں ہو سکتی۔ مولوی ظہیر الحسن تو گرفتار ہو گئے لیکن ان صاحب سے کہیں زیادہ قابل اعتراض تقریر کرنے والے سعد رضوی آزاد پھر رہے ہیں۔ حکومت کا ردعمل چند وزرا کے بیانات تک محدود ہے۔ مذہبی اشتعال کا سہارا لے کر ریاست کے کسی منصب دار کو نشانہ بنانے کی روایت اس ملک میں ستر برس پرانی ہے۔ اسکے پس پشت ایک سیاسی کھیل کارفرما ہوتا ہے لیکن اشتعال اور آگ کے اس کھیل میں حتمی نقصان ریاست کا ہوتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ