پاکستان کو کشمیر پر اپنی سفارتکاری میں شدت اور جدت لانے کی ضرورت ہے،ڈاکٹر محمد مشتاق خان


سلام آباد(صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا  ہے کہ حق خودا ردیت کشمیری عوام کا بنیادی اور مسلمہ حق ہے جس سے دنیا کے انصاف پسند اور جمہوری حلقوں نے تسلیم کیا ہے۔ پاکستان کو کشمیر پر اپنی سفارتکاری میں شدت اور جدت لانے کی ضرورت ہے۔جارحانہ سفارتکاری سے مودی کے مذموم عزائم کو شکست دی جاسکتی ہے۔پاکستان وزارت خارجہ کو متحرک کردار ادا کرنا ہے بیرون ملک موجود کشمیری افراد کو پاکستانی سفارتخانوں کیساتھ وابستہ کرنے کی ضرورت ہے جو بلا معاوضہ یہ فریضہ انجام دیں گے ،بیس  کیمپ میں بھرپور طریقے سے عوام کو اس تحریک کی پشت پر کھڑا کریں گے۔جماعت اسلامی مسئلہ کشمیر کو نہ تو دفن نہیں ہونے دے گی اور نہ ہی کھلواڑ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے ان خیالات کا اظہار مقبو ضہ جموں و کشمیر کے صحافیوں کی تنظیم یونائیڈڈ کشمیر جرنلسٹس ایوسی ایشن(یکجا) کے ممبران کیساتھ اسلام آباد میں تفصیلی تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا ہے کہ بھارت خود مسئلہ کشمیر  اقوام متحدہ میں لیکر گیا تھا،جہاں پوری دنیا کو گواہ ٹھہرا کر کشمیری عوام کیساتھ حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن 77 برس گزرنے کے باوجود کشمیری عوام اپنے حق خود ارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد او ر تاریخ کی بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے ہی مسئلہ کشمیرپر پاکستان اور بھارت کو فریق تسلیم کیا،اور ساتھ ہی اہل کشمیر کو ان دونوں ممالک میں سے کسی ایک ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنے کا فیصلہ دینے کا اعلان کیا لیکن اقوام متحدہ بھی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہے۔ڈاکٹر مشتاق نے کہا کہ بھارت شروع دن سے مکاری،چالاکیاں اور چالبازیوں سے کام لیتا رہا۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پہلی غلطی کی بنیاد سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کرکے ڈالی گئی۔جس کے بعد مسئلہ کشمیر سرد خانے میں پڑا رہا۔پھر 1971 میں مکتی باہنویوں کی مدد سے مملکت خدا داد کو دولخت کرکے مشرقی بازو کاٹ دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں دوطرفہ شملہ معاہدہ  معرض وجود میں آیا۔امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر نے کہا کہ بیس کیمپ نے بھی وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس سے کرنا چاہیے،دوسرا شیخ عبداللہ نے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالا۔البتہ سنہ 80 کی دہائی میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم متحدہ محاذ کی داغ بیل ڈالی گئی اور 1987 کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کی کامیابی کو شکست میں بدلا گیا تو اس کی کوکھ سے مسلح جدوجہد نے جنم لیا۔اس جدوجہد نے بھارت کو ہلاکر رکھ دیا،چونکہ بھارت کی متعدد شمال مشرقی ریاستوں میں تحریکیں جاری تھیں۔ یہی وجہ ہے بھارت نے اس خوف سے کشمیری عوام کو اینگیج کیا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بھارت کی کئی ریاستیں اس سے الگ ہوسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ باقی رہی سہی کسر 9/11 کے واقعے نے پوری کی،جس کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو لپیٹنے کی کوشش کی گئی اور پھر 2004 میں کنٹرول لائن پر بارڈ لگائی گئی۔انہوں نے کہا کہ یہ واقعات کشمیری عوام میں مایوسی کا باعث بنے البتہ وہ تحریک آزادی سے دستبردار نہیں ہوئے۔بھارت باالخصوص مودی 05اگست2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت پر حملہ آور ہوا اور بھارتی آئین کی دو اہم شقیں 370اور 35اے کو ختم کی گئیں۔لاکھوں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل فراہم کرنے کے علاوہ کشمیری عوام کی جائیدادو املاک اور رہائشی مکانات پر قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔اہل کشمیر پر تاریخ کا بدترین فوجی محاصرہ مسلط کیا گیا لیکن جو مثبت پہلو ہے کہ کشمیری عوام نے بھارت کے سامنے سرینڈر کرنے سے انکار کیا ہے۔آج صوبہ جموں کے ڈوڈہ،کٹھوعہ ،سانبہ،پونچھ اور راجوری کے علاوہ مقبوضہ وادی کشمیر میں لوگ پھر ایکبار اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،جو مودی کیلئے پیغام ہے کہ تمہارے دس لاکھ فوجیوں اور جابرانہ اقدامات کے باوجود ہم آزادی کی جدوجہد سے باز نہیں آئیں گے۔جبکہ آنے والے ایام میں مودی کو مزید سرپرائز ملیں گے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت ایک نیا بیانیہ لیکر چلا ہے اور وہ عالمی سطح پر تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے جوڑنا۔گوکہ بھارت اس میں کامیاب تو نہیں ہوا البتہ پاکستان کو اپنی سفارتکاری میں شدت اور جدت لانے کی ضرورت ہے۔جارحانہ سفارتکاری سے مودی کے مذموم عزائم کو شکست دی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی افواج کو ماورائے عدالت قتل،خواتین کی آبروریزی اور بربریت کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے البتہ اہل کشمیر نے اپنی عظیم قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور ان قربانیوں کو دنیا تک پہنچانا ہے۔امیر جماعت اسلامی نے یکجا ممبران کو یقین دلایا ہے کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور جماعت اسلامی پاکستان شروع دن سے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے یکسو ہیں۔ہم نے کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی آج کررہے ہیں۔ہم بیس  کیمپ میں بھرپور طریقے سے عوام کو اس تحریک کی پشت پر کھڑا کریں گے۔جماعت اسلامی پاکستان و آزاد کشمیر مسئلہ کشمیر کو نہ تو دفن نہیں ہونے دے گی اور نہ ہی کھلواڑ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر جو تجاویز میں نے پیش کیں انہیں آزاد کشمیر کی تما م سیاسی جماعتوں کے سربراہاں کے علاوہ کل جماعتی حریت کانفرنس نے سراہا ہے،جن میں اہم تجویز یہ تھی کہ مسئلہ کشمیر پر نائب وزیر خارجہ کا تقرر عمل میں لایا جائے،جو آر پار کشمیری قیادت کیساتھ رابطے کا پل کا کردار ادا کرسکے۔پاکستان وزارت خارجہ کو ایکٹو کردار ادا کرنا ہے،اس کے علاوہ امریکہ،برطانیہ،جاپان،ساوتھ افریقہ ،فرانس اور یورپی یونین میں موجود کشمیری افراد کو پاکستانی سفارتخانوں کیساتھ وابستہ کرنے کی ضرورت ہے جو بلا معاوضہ یہ فریضہ انجام دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں تمام جماعتوں اور افراد کو مسئلہ کشمیر پر اکٹھا کیا اور آنے والے 27اکتوبر کو ایک انٹر نیشنل کشمیر کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں پوری دنیا سے لوگوں کو مدعو کیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کیساتھ وابستہ افراد سے جیلوں اور عقوبت خانوں میں جبر اور بربریت کی بنیاد پر من پسند بیانات لیے جاتے ہیں،کیا دنیا ان بیانات کو  تسلیم کرے گی۔جماعت اسلامی نے تو اپنی پوری ایک فصل تحریک آزادی میں کٹوائی ہے،ان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں،پوری ریاست کی خاک میں آزادی حریت میں چنگاری ہے۔امیر جماعت نے یکجا ممبران پر زور دیا کہ وہ قلم و قرطاس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر بہتر اندازمیں اجاگر کرسکتے ہیں کیونکہ وہ سرزمین کشمیر کے بیٹے ہیں اور اپنے درد کو بخوبی جانتے ہیں۔اس سلسلے میں Comfortزون سے نکلنے کی ضرورت ہے،سوشل میڈیا اہم ٹول ہے ۔ریاست کے لوگ جیو پولٹیکل ذہن رکھنے والے ہیں،اور ہم جب بھی پار کے لوگوں سے ملتے ہیں تو خود کو سرینگر میں محسوس کرتے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اہل فلسطین سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک ظالم سے نبرد ازما ہین اور عملا اس سے شکست سے دوچار کرچکے ہیں۔