ہمارے کسانوں سے حکومتی بے رْخی : تحریر نصرت جاوید


یورپ کے کئی ملکوں میں گزشتہ دوتین برسوں کے دوران کسانوں کے بھرپور احتجاج ہوئے۔ اکثرمقامات پر وہ اپنے کھیتوں سے اگائی اجناس کی پہاڑیاں بناکر جلاتے رہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ بازار میں ان کی قیمت اس خرچ کے برابر بھی نہیں تھی جو مذکورہ اجناس پیدا کرنے پر صرف ہوا تھا۔ فرانس میں کسانوں کی ایسی ہی تحریک بعدازاں بے روزگاروں اور کم آمدنی والوں کے دلوں میں جمع ہوئے غصے کے ساتھ مل کر ایک عوامی تحریک کی صورت اختیار کرگئی۔ اس نے کئی مہینوں تک اس ملک میں روزمرہ کی زندگی کو مفلوج بنادیا۔ کرونا کی وبا نمودار نہ ہوتی تو شاید فرانس اگر ایک اور انقلاب نہیں تو خانہ جنگی سے ہر صورت دو چار ہوجاتا۔
پاکستان کے دارالحکومت میں بیٹھ کر یورپی کسانوں کے احتجاج کی کہانیاں پڑھتے ہوئے میں ان کی پریشانیوں کو کماحقہ انداز میں سمجھ نہ پایا۔ چند ہی ماہ بعد مگر بھارت کے پنجاب میں بھی کسانوں کی تحریک شروع ہوگئی۔ پنجاب کے دیہات سے قافلوں کی صورت روانہ ہوکر وہ دلی کی جانب مارچ کرنے لگے۔ مودی حکومت نے گھبرا کر دلی میں داخلے کے کئی راستے سیل کردئیے۔ ایسے ہی ایک راستے کے باہر کسان کئی ماہ تک دھرنا دئیے بیٹھے رہے۔بالآخر مودی حکومت کو ان کے بیشتر مطالبات سرجھکا کر تسلیم کرنا پڑے۔
کسانوں کے دلوں میں مودی حکومت کے خلاف جو غصہ جمع ہورہا تھااس کا ساتھ مودی کی مخالف ملک گیر جماعتوں نے بھی نہیں دیا۔ کانگریس کی بے اعتنائی تو ایک حد تک سمجھی جاسکتی تھی۔ بھارتی پنجاب کی مگر ایک طاقتور جماعت اکالی دل بھی ہے۔ بنیادی طورپر وہ سکھوں کی مذہبی اعتبار سے جداگانہ شناخت کو ترجیح دینے والی جماعت تصور ہوتی ہے۔ وسیع تر تناظر میں البتہ اس کو بھارتی پنجاب میں آباد کسانوں کی نمائندہ بھی مانا جاتا ہے۔ یہ جماعت متعددبار صوبائی حکومتیں بھی بناتی رہی ہے۔
اپنی مخصوص پہچان کے باوجود اکالی دل کسانوں کے اضطراب سے پرخلوص وابستگی دکھانے میں ناکام رہی۔ اس کی عدم دلچسپی نے کیجریوال کی بنائی عام آدمی پارٹی کو بھارتی کسانوں میں مقبول بنانا شروع کردیا۔ مذکورہ جماعت دلی کی مقامی حکومت کو غریب پرور رویے کے ساتھ چلارہی ہے۔ لوک سبھا کے حالیہ انتخاب کے قریب مودی حکومت نے اس جماعت کے بانی “اروندکیجر یوال” کو بدعنوانی کے مختلف مقدمات میں الجھاکر جیل بھیج دیا۔ ہائی کورٹ سے اسے ضمانت بھی نہ مل پائی۔ سپریم کورٹ نے البتہ اسے انتخابی مہم چلانے کے لئے کچھ دنوں کے لئے پیرول پر رہا کیا۔ پولنگ سے دوروز قبل اسے مگر واپس جیل جانا پڑا۔ انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے چند ہفتے بعد وہ بالآخر سپریم کورٹ ہی سے ضمانت پر رہا ہوا ہے۔
یورپ سے شروع ہوکر بھارتی پنجاب کے کسانوں کے دلوں میں ابلتے اضطراب کا ذکر میں گزشتہ چند دنوں سے پاکستانی پنجاب کے مختلف اضلاع سے آئے ٹیلی فونوں کی وجہ سے کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔ بنیادی اور نسلی اعتبارسے میں شہری مزاج کا حامل ہوں۔ زراعت سے میرے دور پرے کے کسی رشتے دار کا سرسری تعلق بھی نہیں رہا۔ میری بیوی کو وراثت میں لیکن اسلام آباد کے نواح میں زمین کا ایک ٹکڑا ملا ہے۔ اس رقبے سے کاشت کاری کے ذریعے اضافی پیسے کمانا ممکن ہی نہیں۔ جنرل مشرف نے 2007 کے آخری ایام میں ایمرجنسی پلس لگاکر بے روزگار بنادیا تو وقت گزاری کے لئے اس رقبے پر چلاجاتا۔ جی بہلانے کو وہاں گھریلو استعمال کے لئے سبزیاں اگانے کی کوشش کی۔ دودھ دینے والے دو تین جانور بھی رکھ لئے۔ کئی برس گزرنے کے بعد مگر دریافت ہوا کہ یہ دونوں کام میرے بس سے باہر ہیں۔ اپنی اوقات سے کہیں زیادہ رقم کے مسلسل ضیاع کے بعد اب کانوں کو ہاتھ لگاکر شوقیہ کاشت کاری سے دست بردار ہوچکا ہوں۔
سبزیوں کی کاشت اور دودھ کے جانور پالنے میں کچھ عرصہ دلچسپی لینے کی بدولت البتہ یہ جان لیا کہ ہمارے ہاں موسمی تبدیلیاں کاشت کار کے لئے عذاب کی صورت اختیار کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی پالیسیاں بھی ہیں جو کاشت کار کومزید بددل بنارہی ہیں۔رواں برس کے مارچ/اپریل میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی تو کسان کو طلب ورسد پر مبنی نظام کی سفاکی کے سپرد کردیا گیا۔ مثال کے طورپر وفاقی وزیر خزانہ کے اجداد یقینا کاشت کار رہے ہوں گے۔ وہ مگر کندھے اچکاکر حکومت کو گندم کی خریداری میں ملوث کرنے کی مخالفت کرتے رہے۔ پنجاب حکومت وفاقی حکومت کی مدد کے بغیر گندم کی سرکاری طورپر طے ہوئی قیمت ادا کرتے ہوئے کسانوں سے گندم لے کر اسے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے محروم تھی۔ ریکارڈ بناتی تعداد میں گندم پیدا کرنے کے باوجود بالآخر کاشت کار رل گیا۔ بازار میں سرکاری طورپر طے ہوئے ریٹ سے کہیں کم قیمت پر گندم بیچنے کے باوجود اب بھی کئی کسان ہزاروں من گندم اپنے ہاں رکھے ہوئے ہیں جو ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہورہی ہے۔
کاشت کار ابھی ریکارڈ بناتی گندم پیدا کرنے کے گناہ کی سزا بھگت ہی رہا تھا تو جولائی کی 15تاریخ سے مکئی کی کٹائی شروع ہوچکی ہے۔ حکومت تاریخی اعتبار سے مکئی کی قیمت کا تعین نہیں کرتی۔ بازار ہی اس کی قیمت طلب ورسد کی بنیاد پر طے کرتاہے۔ گزشتہ برس طلب ورسد کے اصول نے مکئی کی فی من کی قیمت ابتدا پانچ ہزار روپے کی سطح تک بڑھادی تھی۔ تاریخی طورپر مکئی ہمارے ہاں دودھ دینے والے جانوروں کے چارے کے لئے اگائی جاتی تھی۔ بعدازاں اس کے مزید استعمال کے ذرائع بھی دریافت ہوگئے۔ مکئی کاتیل دل کے مریضوں کے لئے بہتر شمار ہوتا ہے۔ مکئی کا سب سے اہم استعمال مگر مرغیوں کی فیڈ کے لئے ہونا شروع ہوا۔ دودھ دینے والے جانوروں کے لئے بھی مکئی کو سائیلج (Silage)کی صورت میں تبدیل کیا جانے لگا۔
مکئی کا مختلف النوع کاروبار میں منافع بخش ثابت ہونا کاشت کار کے لئے اچھی خبر تھی۔ وہ اسے زیادہ سے زیادہ تعداد میں پیدا کرنے کی جانب راغب ہوگیا۔ 15جولائی سے مگر جوکٹائی ہورہی ہے اس کے نتیجے میں ایک من مکئی کی قیمت بازار میں اوسطا 1700روپے سے ایک روپیہ بھی نہیں بڑھ رہی۔ اب کی بار شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے مکئی کی فی ایکڑ پیداوار اوسطا60سے 70من تک محدود رہی ہے۔ یاد رہے کہ اس مقدار کے حصول کے لئے کاشت کار کو اوسطا ایک لاکھ 35ہزار روپے سے ایک لاکھ 40ہزار روپے خرچ کرنا پڑا ہے۔ ٹھوس اعدادوشمار پر غور کرتے ہوئے آپ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مکئی پیدا کرنا بھی اب گندم اگانے کی طرح گھاٹے کا سودا بن گیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ ہمارا کاشت کار کب تک گھاٹا برداشت کرتے ہوئے پاکستان کو خوراک کے حوالے سے خودکفیل رکھنے کے لئے اپنا خون جلاتا رہے گا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت