وطن عزیز آج جہاں کھڑا ہے، فیصلہ کرنا مشکل کہ اسکا اصل ذمہ دار کون ہے؟ عمران خان کی حکمت عملی ملک کو انتشار اور انارکی میں دھکیلنا تھا یا اسٹیبلشمنٹ ذمہ دار جس کی فخریہ پیشکش عمران خان یاپھر موجودہ حکومت جسکی پہلی ترجیح اپنی سیاست یا ملک بچانا نہیں، عمران خان کا مکو ٹھپنا ہے؟
موجودہ صورتحال میں جنرل باجوہ کا رول بھی اہم، جولائی 2018 کا الیکشن عملاً وطنی سیاست اور نظم ونسق مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کو منتقل، آج بغیر علانیہ مارشل لا کی کیفیت ہے۔ تب سے وطنی سیاست، امن عامہ، معیشت، خارجہ پالیسی کے من وعن فیصلے ’’خلائی مخلوق‘‘ کر رہی ہے۔ کل نیویارک امریکہ میں عزت ماب جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا ، 10اپریل 2022 کی رات عدالت کا کھلنا ، مارشل لا کو روکنا تھا ، اسکا سہرا اپنے سر پر سجایا۔ میری معلومات کےمطابق، جسٹس اطہر من اللہ کا رات عدالت لگانا، مارشل لا روکنے سے زیادہ، عمران خان جنرل باجوہ کو برطرف کرنے کا ممکنہ خدشہ تھا۔ جہاں عدالتیں کھل گئیں، وہاں اسلام آباد کی سڑکوں پر فوج کا گشت سمجھ میں آتا ہے۔
مارچ 2022سے آج تک اسٹیبلشمنٹ اور عمران مخالف جماعتوں نے عمران کو ختم کرنے کیلئے جو بھی حکمت عملی بنائی، اسکی سیاست کو چار چاند لگا گئی۔ عمران کی مقبولیت میں اسکے مخالفوں کی سیاسی نااہلی مستحکم ہو گئی۔ یہی وجہ کہ دسمبر 2021ءتک کا انتہائی غیر مقبول لیڈر آج ملکی سیاست پر چھایا ہے۔ نئی واردات، اچانک حکومتی وزیر بے تدبیر نے پچھلے ہفتہ دھواں دار پریس کانفرنس میں تحریک انصاف پر پابندی کا مژدہ سنایا۔ جس تندی و برق رفتاری سے عندیہ دیا، لگا آناً فاناً پابندی لگنے کو، بخوبی اندازہ تھا کہ ’’خلائی مخلوق‘‘ کا لکھا سکرپٹ جناب عطا اللہ تارڑ نے پڑھ ڈالا، تکلفا ً شہباز شریف صاحب کو بھی اطلاع مل گئی ہو گی۔ آج حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پابندی بارے گومگو کا شکار کہ Damned If You Do, Damned If You Don’t ۔
تذبذب، پابندی لگائی جائے یا نہیں، سیاسی سبکی کا سو فیصد کھاتا کھل چکا ہے، نہیں معلوم کس کے مشورے پر عمل پیرا ہیں۔
DG ISPR کی کڑاکے دار پریس کانفرنس، تحریک انصاف بارے ان کے ہر لفظ سے متفق ہوں۔ صرف ایک بات تشنہ لب، آخر کو ’’انتشاری ٹولہ اور فتنہ‘‘ کس کی تخلیق ہے؟ میرا تو اسٹیبلشمنٹ اور جنرل باجوہ کیخلاف مقدمہ ہے ہی یہی، ایک ذرا سی چیز کو عفریت بنا ڈالا۔ بتائیں! کس لیبارٹری میں یہ فرینکسٹائن تیار ہوا؟ بے اعتنائی، تساہل، تغافل، تجاہل جو نام مرضی دیں، ادارے اندر مجرموں کو کٹہرے میں لانے کا رواج نہیں ہے۔ جواب ایک ہی، ” We Tried But It Didn’t Work ” پاکستان کا بھرکس نکل گیا۔ DG ISPR کی پریس کانفرنس غم و غصہ سے بھری، گنجائش موجود بھی تھی۔ اگر ہم بدنیت یا جاہل نہیں ہیں تو کس کو نہیں معلوم کہ وطن عزیز میں دہشتگردی کا عفریت جڑ پکڑ چکا۔ مقبول لیڈر نے اپنی ذات و سیاست کو پاکستان پر ترجیح دے رکھی ہے۔ یہی بیانیہ چاہنے ماننے والوں کا اور اسی بیانیہ کا اعجاز کہ سوشل میڈیا دہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ عمران خان کا سوشل میڈیاانکی سوچ کا عکاس ہی تو ہے۔ سوچ کی پستی کہ ’’پاکستان کمزور ہوگا تو فوج کمزور ہو گی‘‘۔ عمران کو دل کی گہرائیوں سے یقین کہ اقتدار میں واپسی اور جیل سے رہائی ناممکن۔ IMF ، امریکہ، بھارت جو کوئی مدد کو آئے اُسکا بھلا۔ پچھلے اڑھائی سال کی تقاریر، انٹرویو، تحریریں اور بیانات سوائے وطن عزیز میں ٹکراؤ، تفرقہ، انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔
جو کوئی جس راہ پر چل نکلے اور ایسے عقیدے پر ایمان لے آئے، اللہ تعالیٰ اسکے مطابق اسباب، وسائل، سوچ مہیا کرتا ہے۔ ساری زندگی عمران نے اپنی اداؤں سے صَرف نظر رکھا، خود احتسابی، غلطیوں کا احاطہ، سچائی اور دیانت ہرخانہ ایسے عمل سے خالی رہا۔ کئی ایسے جرائم سرزد ہوئے جو ناقابل معافی و تلافی، دو جرائم کی وضاحت عمران خان کو دینا ہوگی۔ جو سوچ، بیانیہ، ذہنیت عمران خان کی، من وعن ماننے چاہنے والوں کو منتقل، سوشل میڈیا اسکے پرچار و تشہیر میں دن رات جُت جاتا ہے۔ بتانا ہوگا، قاضی فائز عیسیٰ اور جنرل عاصم منیر اپنے اپنے اداروں کے سربراہ نہیں تھے، ادارہ میں LAME DUCK تھے۔ عمران خان، 6 سال ( 2019 سے ) قاضی فائز عیسیٰ اور 6 ماہ (2022میں) جنرل عاصم منیر بارے جھوٹا پروپیگنڈا، گالم گلوچ، بدزبانی، کردار کشی سوشل میڈیا اور PTI کے رینکس سے کیوں جاری رکھی۔ ان دو بیچاروں کا کیا قصور تھا؟ عمران خان! اللہ تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی آج حرکت میں ہے۔ آپ کے ٹولہ نے آپکی ایما پر بغیر کسی وجہ جسٹس قاضی فائز اور جنرل عاصم منیر اور ان کے خاندان کی کردار کشی کی۔
DG ISPR کا ایک جملہ مجھے لرزا گیا،’’پہلے وارننگ دیں گے، پھر ہوائی فائرنگ اور پھر وہی کچھ جو کچھ ہونا چاہیے‘‘۔ نجی محفلوں میں عرصہ سے اسی خدشہ کا برملا اظہار کر رہا ہوں یعنی کہ وہ خونیں دن قریب آ پہنچے۔ عمران کی خود غرضی کہ اس نے ہر چاہنے ماننے والے کا ایمان اعتقاد اپنی ذات تک محدود کر رکھا ہے، ’’مرشد نہیں تو پاکستان نہیں‘‘۔ عمران اور اسکا میڈیا بھارت اور امریکہ کے برضا و رغبت سہولت کار بن چکے ہیں۔ عمران خان ٹولہ اُن کیساتھ ملکر فوج کو کمزور کرنے کے عمل میں بھرپور حرکت میں ہے۔ مشتری ہوشیار باش! لیڈر، سیاستدان،جرنیل، جج کئی آئے کئی گئے، کسی کے ذاتی مفاد، باہمی لڑائی، دھینگا مشتی کی نذر پاکستان نہیں ہوگا کہ یہ ملک ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے (ان شاء اللہ)۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دُعا اتنی کہ پاکستان بغیر کسی کشت وخون کے قائم و دائم رہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ