فرینکفرٹ، ڈھاکہ، بنوں کا ایک ساتھ تذکرہ اسلئےکہ واردات کا طریقہ ایک ہی ہے۔ صرف تلاش یہ کرنا ہے کہ ان تینوں مقامات پر فتنہ خیز ی کس نے کی اور اسکے پیچھے کیا عوامل تھے۔ تجزیہ نہ کیا گیا اور تدارک بھی نہ کیا گیا کہ آخر خواجہ آصف کو بولنا پڑاتھا کہ وہ کئی دن سے تنبیہ کر رہے ہیں کہ کچھ قوتیں سراٹھا رہی ہیں۔ ایک بیانیہ یہ چل رہاہے کہ ’’کچھ ہونے والا ہے‘‘ جب یہ نعرہ زور پکڑتا ہے تو کوئی آواز یہ نعرہ لگانے لگتی ہے کہ’’ قومی مفاد‘‘ میں ایسا کرنا ضروری تھا۔ مہینہ دو مہینہ بعد نواز شریف جاگ اُٹھتے ہیں اور پھر بتاتے کہ ہماری حکومت میںبجلی کی یہ قیمت تھی اور آٹا اتنا سستا تھا۔
سیاست کی بدحالی کا یہ عالم ہوا کہ مفتی تقی عثمانی جیسے سنجیدہ عالم بھی بول پڑے۔ ٹیلی ویژن پر باتیں کرتے ہوئے پورے 70 سال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ انگریز ایک ریلوے لائن بچھاگئے تھے۔اب تک اسکی پٹریاں بیچنے کے باوجود گھسٹ گھسٹ کر چل رہی ہیں۔ انہوں نے بہت غصّے میں کہا کہ جمہوریت اور اسلام کے ہر طرح کے تجربے پاکستان میں کئے گئے مگر نالائقی اور بدحالی نے اتنے بُرے دن دکھائے ہیں کہ بولنا پڑرہا ہے، انہوں نے جھیل سیف الملوک کا حوالہ دیتے ہوئے اظہار کیا کہ ناران سے جھیل تک ایک سڑک اسلئے نہیں بنائی جارہی کہ ایجنٹوں نے اپنی جیپیں اور خچر رکھے ہوئے ہیں۔ سڑک بن گئی تو انکا کاروبار بند ہوجائیگا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ملک کی معیشت ڈانواںڈول ہے، دوسری طرف نواز شریف صاحب مری میں ایئر کنڈیشنڈ ٹرین اور بسیں چلانے کے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں اور بیٹی تابعداری میں سب کچھ بلا سوچے سمجھے کرنے کا اعلان کررہی ہے۔علاوہ ازیںسیاحت کے شعبوں کو اور ریسٹ ہاؤسز کو بھی فوج کے حوالے کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ یوں ٹوٹے کرکے محکموں کو فوج کو دینے کی بجائے، وہ جوکہا گیا ہے کہ ٹیکنوکریٹ کی حکومت کےنام پر حکومت تو فوج ہی کر ے گی۔ تو بے نقاب ہو کر سامنے آجائیں۔ ہم تو بہت سے فوجی دور، کارنامے، انڈیا سے لڑائیاں، کارگل اور دریاؤں کے پانی پہ روز کے جھگڑے دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے ہیں۔ یہ الگ بات ہر دفعہ کے تجربے میں ہم نے حاصل کچھ نہیں کیا، دہشت گردی جو ضیاء الحق کے زمانے سے امریکہ کی مدد سے ہوتی رہی ہے۔ اب افغانی مخاصمت کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے ساری سرحدی باڑ اکھاڑ ڈالی ہے۔ ضد بھی یہ ہے کہ تجارت انڈیا سے وہ بھی پاکستانی سرحدوں سے بغیر روک ٹوک کریں۔ آئس ڈرگز بناکر ہمیں اور دنیا کو بلا روک ٹوک بھیجنے پر مصر، ورنہ آج بلوچستان میں کل کے۔پی میں اور پرسوں گلگت میں ہمارے جوانوںکو ڈھیر کرکے رہیں گے اور کرتے رہے ہیں۔ 2021 میں جب کابل پہنچے تھے،وہ منظر ہم نے دیکھے ہیں۔ افغانی خود تو پتہ نہیں کہاں تھے کہ یہ طالبان اور داعش سوئمنگ پول میں کیسے مینڈکوں کی طرح اچھل رہے تھے۔ اور کھانے کیسے نکال نکال کر کھارہے تھے اور ہمارے اور انکے سربراہ، ریسٹورنٹ میں بیٹھےکافی پی رہے تھے۔ اب تو چار سال ہوگئے۔ عورتیں جن سے وہ پیدا ہوئے انہیں کبوتروں کی طرح بند رکھا ہوا ہے۔ دنیا کے سارے ممالک سوائے امریکہ کے، عورتوں کی پڑھائی، اسکول اورکالج کھولنے پہ زور درہےہیں پھر کبھی دوحہ کبھی قطر کبھی مصر میں ان ہی انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرتے رہتے ہیں۔
اب دس ماہ کی بندش کے بعد چمن بارڈر اسلئے کھلا نظر آیا کہ پاسپورٹ اور ویزا کی شرط ختم۔ اب نقشہ نظر آئیگا۔ باقاعدہ تجارت کہاں ہے اور اسمگلنگ کتنی زیادہ اور کونسی کرنسی چل رہی ہے ۔ ہماری خارجہ پالیسی بھی عجب ہے، افغانیوں یا طالبان کی ضد پر بارڈر کھول لینا اور ایران، انڈیا سے تجارت اور بارڈر آسان نہ بنانا، سرکار میں بیٹھے لوگوں کو کیا خوف ہے۔ اب تو نواز شریف بھی کہہ رہے ہیں کہ بارڈر کھلے اور پورے جنوبی ایشیا کے ممالک سےتجارتی روابط بڑھائے جائیں ۔ شبہ یہ رہنا ہے کہ ہم ڈرجاتے ہیں اور مفروضہ شکوک کو عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ہرطرف سے سیاست دان اور ماہرین سیاست پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی فوجی سازش میں قیدی 804 اور گرفتار لوگ شریک تھےتو ڈیڑھ سال سے اس مسئلے کو لٹکا یا ہوا کیوں ہے۔ دنیا کے علاوہ ہماری پنجاب کی سربراہ روز کبھی ورکشاپس کھولنے، کبھی موبائل اسپتال بنانے کی بات کرتی ہیں۔ دوسری طرف خاص الخاص لوگ شہباز شریف کی لمبی لمبی تقریروں اور غیر اہم تجارتی ملکوں کے دوروں سے نالاں ہیں۔ یاد کریں نگران وزیراعظم نے اپنے خاندان تک کو تین مہینوں میں ساری دنیا دکھادی تھی۔ اب کام تو ہے نہیں کہ پیسہ نہیں ہے۔ محض وعدے اور یہ دوسرے ملکوں کے سربراہوں کو بلا ضرورت دورے کی دعوت، جس سے کچھ نہ حاصل نہ وصول۔
مہنگائی نے سارے ملک میں طوفان اور بے چینی پھیلائی ہوئی ہے۔ بلیوایریا کی آدھی بلڈنگیں خالی پڑی ہیں کہ کرائے اور اخراجات ناقابلِ برداشت ہو گئے ہیں۔ برانڈز کے نام پر ہزاروں کے سوٹ بیچنے والے 502سیل پر بورڈ لگائے بیٹھے ہیں۔ میرے سارے دوستوں کے ڈرائیور اور چپراسی، روز کبھی بجلی کابل دکھانے اور اس پر لکھنے کا کہنے آجاتے ہیں۔
پاکستان کو ان تمام بُحرانوں سے نکالنے کیلئے فوج اور سول حکومت کو اپنا اندازِ بدلنا ہوگااور روز کسی نہ کسی کو ایجنٹ کہہ کر پکڑنا بے سود اور بہت ہوچکا۔ عدلیہ اگر مدد کرسکےتو سمجھائے کہ بغاوت کے جذبات اس طرح اور بھڑکتے ہیں اور بغاوت بھی کس کے ساتھ۔ عوام کو روٹی روزی چاہئے۔ جو لوگ ڈیڑھ برس سے اندر ہیں۔ انکو سزا دینی ہے تو مقدمے کھل کر چلا کر قصہ ختم کرو۔ عمران کو آپ خود نیلسن منڈیلا بنا رہے ہیں۔ وہ جب 26 سال بعد باہر آیا تھا تو اس نے عام معافی اور کسی کے خلاف مقدمہ چلانے سے انکار کیا تھا۔ یہ قیدی 804 کچھ غرورچھوڑے سیانے بندوں کی بات سنے اور بغاوت کا چولا اتارے ۔زمین پہ بیٹھے سارے نوجوان اسکی بات سنیں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ