ادھورا کام، پورا نقصان : تحریر نوید چوہدری


بہت پہلے عرض کیا تھا کہ محض پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرنے سے کام نہیں چلے گا، پاکستان کو واپس پٹڑی پر چڑھانا ہے تو صرف فوج کے غیر سیاسی ہونے سے کچھ نہیں ہوگا، ٹاٹ جج ناسور ہیں تو حوالدار اینکر،تجزیہ کار، یوٹیوبرز گٹر کے کیڑے،سیاسی جماعتوں، آزاد ججوں اور پروفیشنل صحافیوں کو کچلنے کے لیے کھربوں روپے کے سرکاری خرچے پر بنایا گیاسسٹم وہیں گھسیڑنا ہوگا، جہاں سے نکال کر ملک میں افراتفری مچائی ہم لکھنے والے ہرگز عقل کل نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اردگرد کے ماحول اور زمینی حقائق کا جس حد تک ممکن ہو جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت ملک پر نہ صرف غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ ایک عام شہری بھی بتا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی تین حکومتوں (وزیراعظم شہباز شریف کے دو ادوار اور نگران سیٹ اپ) کے باوجود میڈیا، سوشل میڈیا اور عدالتوں کو ان کے دائرہ کار کے اندر رکھنے کی نیم دلی سے کی جانے والی کوششیں الٹا تباہ کن اثرات مرتب کررہی ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سنگین نوعیت کا خلفشار پیدا کیا جارہا ہے۔ جیسے ہی ملک معاشی و سیاسی استحکام کی جانب بڑھنے لگتا ہے عدالتوں سے کوئی ایسا فیصلہ جاری ہو جاتا ہے کہ جس سے سارا نظام لرزنے لگتا ہے۔ مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ناقدین کا یہی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا گیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے آئین کو ایک بار پھر ری رائٹ کردیا گیا۔ اس سے پہلے بندیال دور میں پنجاب میں ن لیگ کی حکومت الٹانے کے لیے آرٹیکل 63 اے کی جان بوجھ کر غلط تشریح کرتے ہوئے آئین کو ری رائٹ کیا گیا تھا۔ آئین ری رائٹ کرنے کی اصطلاح صورتحال کی اصل سنگینی کو ظاہر نہیں کرتی،حالانکہ اس کا سادہ مطلب یہی ہوتا ہے کہ آئین شکنی کی گئی۔ پی ٹی آئی کے حق میں عدالتی کارناموں کا پورا دیوان موجود ہے لیکن افسوس اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی سٹیک ہولڈروں ہے جو بروقت جوابی اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔ بندیال دور میں پنجاب حکومت الٹائے جانے کے بعد آئین پر ہم خیال ججوں کی ضرب کو سر جھکا کر برداشت کیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ ایک پی ٹی آئی تو اسٹیبلشمنٹ نے 2011 میں بنائی تھی، دوسری پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے ججوں نے 2024 میں کھڑی کردی۔پی ٹی آئی کے حق میں فیصلے دینے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کا خط سامنے آنے کے بعد پوری سنجیدگی کے ساتھ معاملات درست کرنے کی بجائے آئیں، بائیں، شائیں کی پالیسی اختیار کی گئی۔اب کہا جارہا ہے سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے ان سے بھی بڑھ کام کردکھایا۔ اس سوال کا جواب کون دے گا کہ جسٹس مظاہر نقوی استعفی دے کر اطمینان سے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں ان پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ جب جرم ثابت ہوگیا تو سزا کیوں نہیں؟ ایسا ہی معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کا ہے۔ اس وقت جو دبا بنا تھا اسے برقرار رکھا جاتا تو یقینی طور پر سسٹم ایسے ججوں سے پاک ہوچکا ہوتا جو عمران داری میں پوری ریاست کو جھٹکے دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اب قوم سے معافی مانگ رہے کہ انہوں نے میرٹ سے ہٹ بندیال کے پسندیدہ جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ لانے کے لیے ووٹ دیا۔ ایسی معذرت کا کیا فائدہ؟ وزیر قانون کو کھل کر نام لیکر بتانا چاہیے تھا کہ وہ کون سے جج ہیں اورانہوں نے کون سے چاند چڑھائے۔ مظاہر نقوی اور اعجاز الاحسن کے فرار کے بعد ان کا قانونی تعاقب جاری رکھا جاتا تو آج مخصوص جج آئین ری رائٹ کرنے، بے تکے ریمارکس دینے، عدم استحکام کو بڑھاوا دینے کی بجائے اچھے بچوں کی طرح آرام سے کونے میں بیٹھ کر صرف اپنا کام کررہے ہوتے۔یہ بھی حقیقت ہے پاکستان کے اندر ہونے والی ادارہ جاتی کھنچا تانی کو سی پیک کے تناظر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ عدلیہ کے طرح میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی ذمہ داریاں پوری نہیں کی گئیں۔ نو مئی کے مجرموں کو یتیم، مسکین اور معصوم ثابت کرنے کے لیے ٹی وی چینلوں پر بیٹھے اینکروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہنگامے خود فوج نے کرائے۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی قومی مفادات پر حملہ آور رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ ایجنسیوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا میں انہی عناصر سے کام لینے کی کوشش کی جو ان کے ٹاٹ تھے لیکن یہ اندازے غلطی تھی کیونکہ ریٹنگ اور ڈالروں کے چکر میں ان کے اپنے پالتو بے وفا ہوگئے۔ اب فائر وال کی تنصیب کا ارادہ ہے دیکھیں کب پورا ہوتا ہے۔ اینکروں کے حوالے سے چینل مالکان کو بلا کر ایک بار پھر وارننگ دی گئی ہے۔ پتہ نہیں اسکا کوئی اثر ہوگا یا نہیں۔ مسلمہ اصول ہے کہ کام ادھورا چھوڑا جائے تو نقصان ادھورا نہیں پورا ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں اسی غفلت کے سبب خود کو محفوظ تصور نہیں کررہے۔ اصل سٹیک اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کو ایک بار پھر پریس بریفنگ کے لیے آنا پڑا ہے۔ اگرچہ پرانی باتیں ہی دھرائی ہیں البتہ اتنا ضرور کہا ہے کہ فوج کے خلاف پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جائے گا اور میڈیا سے مسلسل گفتگو ہوتی رہے گی۔پاک فوج کے ترجمان نے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کیا، ساتھ ہی میڈیا کی کارستانیوں کا بھی ذکر کیا۔یہ تاثر بھی ملا کہ سول حکومتیں موثر طور پر نہیں چل رہیں۔ اب جب کہ دہشت گردی عفریت بن کر نازل ہوچکی ہے۔ عدالتی معاملات آئین و قانون کی حدود توڑ رہے ہیں، پی ٹی آئی کے ملکی و غیر ملکی سرپرست پاکستان میں علانیہ انتشار پھیلا رہے، میڈیا کا ایک بڑا حصہ عدم استحکام کی فضا کو بڑھاوا دے رہا ہے، ڈیجیٹل دہشت گردی لعنت بن چکی ہے۔اس صورتحال پر مقتدر حلقے کتنی دیر صبر کا دامن تھامے رکھیں گے۔ حالات خود بخود غیر آئینی راستے کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات