اخبارات، ٹی وی چینلز اور اب انٹرنیٹ کے بے شمار پلیٹ فارموں کی وجہ سے خبروں کا سیلاب برپا ر ہتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ کونسی خبر کو انبار سے جدا کرکے زیر بحث لایا جائے۔ بدھ کی صبح اٹھنے کے بعد میں اسی شش وپنج میں مبتلا ہوگیا۔ اخباروں کا پلندہ کھنگالتے ہوئے مگر ایک خبر پر نگاہ جم کے رہ گئی۔ بچپن میں سنی کہانیوں کی شاہزادیوں کی طرح اگرچہ طے نہ کرسکا کہ اسے دیکھنے کے بعد ہنسوں یا روؤں۔
خبر تھی کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کی ایک ٹیم لاہور پولیس کے ہمراہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے پھیرے لگارہی ہے۔ تحریک انصاف کے قائد وہاں کئی مہینوں سے مختلف مقدمات کی وجہ سے مقید ہیں۔ ان کے خلاف بنائے کئی مقدمات عدالتوں سے کمزور بنیادوں کی وجہ سے خارج ہوتے رہے۔ حکومت مگر مزید مقدمات تیار کرتے ہوئے انہیں جیل میں رکھنے کو ڈٹی ہوئی ہے۔ تازہ ترین کاوش 9مئی کے واقعات پر مرکوز ہے۔ پوری توجہ اس امر پر مبذول رکھی جارہی ہے کہ گزرے برس کے مئی میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں چند فوجی تنصیبات کو جس انداز میں جارحانہ ہنگامہ آرائی کا نشانہ بنایا گیا اس کا اصل ذمہ دار تحریک انصاف کے بانی کو ٹھہرادیا جائے۔ ریاستی ادارے 9مئی کے تناظر میں جو مقدمہ تیار کرنا چاہ رہے ہیں اسے مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کی ہر ممکن کوشش ہورہی ہے۔ عدالتوں میں وہ ٹھوس ثبوتوں کی بدولت درست ثابت ہوگیا تو تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا جواز بھی میسر ہوجائے گا۔
تحریک انصاف کے قائد تواتر سے اس موقف کو دہراتے رہے ہیں کہ ان کی گرفتاری کے بعد عاشقان عمران نے جس انداز میں احتجاج کیا وہ ذاتی طورپر اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔ اسلام آباد کی عدالت میں ان کی پولیس کے بجائے رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری نے کارکنوں کو مشتعل کردیا۔ وہ برجستہ گھروں سے نکل کر مختلف شہروں میں فوجی دفاتر کے باہر احتجاج کے اظہار کو چل پڑے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے سرکردہ رہ نما اسی موقف پر قائم رہتے تو شاید لوگوں کی کثیر تعداد اسے تسلیم کرلیتی۔ کچھ وقت گزرجانے کے بعد مگر ان کی جانب سے یہ دعویٰ بھی شروع ہوگیا کہ 9مئی کے روز حکومتی ایجنسیوں کے تربیت یافتہ لوگ ملک بھر میں سڑکوں پر آئے احتجاجی ہجوم میں گھس گئے تھے۔ ان لوگوں نے غصہ سے بپھرے کارکنوں کو جلاؤ گھیراؤکو اْکسایا۔ یہ دعویٰ کرنے کے بعد مطالبہ شروع ہوا کہ اصل حقائق کا سراغ لگانے کے لئے عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں آئے۔ اس کے روبرو 9مئی کے واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج رکھی گئی تو بآسانی طے ہوجائے گا کہ فوجی عمارتوں میں توڑپھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے اصل ذمہ دار تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نما اور جانے پہچانے دیرینہ کارکن نہیں بلکہ ہجوم میں ایجنسیوں کے بھیجے گھس بیٹھیے تھے۔
پاکستان کی محلاتی سازشوں پر مشتمل تاریخ کو ذہن میں رکھا جا ئے تو تحریک انصاف کا مذکورہ موقف غیر جانب دار افراد کے لئے بھی قابل قبول ہوسکتا تھا۔ تحریک انصاف مگر کسی ایک موقف پر قائم رہنے کی عادی نہیں۔ اس کے بانی برجستہ گفتگو کے دوران کئی بار مختلف موضوعات پر اپنے پرانے موقف کی جگہ نئی کہانی دلائل سمیت بازارمیں لے آتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے وہ ایک بار پھر ایجنسیوں کی جانب سے مبینہ طورپر مشتعل ہجوم میں گھسائے افراد کو 9مئی کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اس موقف کو دہرانا شروع ہوچکے ہیں کہ ان کی گرفتاری کے بعد مداحین عمران خان کا غصہ اور اس کا اظہار فطری تھا۔
رواں ہفتے کا آغاز ہوتے ہی اس ضمن میں انہوں نے مذکورہ موقف میں ایک نیا پہلو متعارف کروادیا۔ اڈیالہ جیل میں چلائے ایک مقدمے کی سماعت کے دن وہاں موجودصحافیوں سے ان کی گفتگو ہوئی۔ روانی میں انہوں نے اس کے دوران انکشاف فرمایا کہ 2023ء کے مارچ کی 13اور 14تاریخ کے بعد ان کے سرکردہ حامیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر آئندہ پولیس کے بجائے رینجرز کے بھاری بھر کم دستوں کے ذریعے گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی تو کارکنان جی ایچ کیو کے باہر جمع ہوکر احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔
عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہوجانے کے باوجود میں ان دنوں متحرک رپوٹروں سے رابطے میں رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔اس کالم اور اپنے ٹی وی پروگرام کے لئے مواد ڈھونڈنے کو اڈیالہ جیل میں بانی تحریک انصاف کے خلاف چلائے مقدمات کی سماعت کے دن اسے رپورٹ کرنے والے ساتھیوں سے بھی رابطہ لازمی ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم تین ایسے رپورٹروں سے فرداََ فرداََ بات کی جائے جو صحافیوں کے اس گروہ میں شامل تھے جن کے ساتھ بانی تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل میں گفتگو کی۔ گزرے پیر کے روز جو سماعت ہوئی اس کے بعدبھی میں نے تین رپورٹرں سے رابطہ کیا۔ ان میں سے ایک نے عمران خان صاحب کو عاجزانہ انداز میں متنبہ کرنے کی جسارت بھی کی تھی کہ مارچ 2023ء میں ان کی جماعت کی جانب سے طے ہوئے جس فیصلے کا وہ انکشاف کررہے ہیں حکومت اسے ’’اعترافی بیان‘‘ ٹھہراسکتی ہے۔ اس کی بنیاد پر وہ اس دعوے پر ڈٹ جائے گی کہ 9مئی کے واقعات کے حقیقی ذمہ دار تحریک انصاف کے قائد ہیں۔ انہوں نے اپنی گرفتاری کے بعد کارکنوں کو عسکری اداروں کے خلاف احتجاج کی منظوری دی تھی۔ فکر مند رپورٹر کا پرخلوص انتباہ مگر بانی تحریک انصاف نے نظرانداز کردیا۔ رپورٹر کا موقف مگر درست ثابت ہوا۔ پیر کی شام سے زمان پارک لاہور میں ہوئے فیصلے کا ذکر ٹی وی سکرینوں پر ٹکروں کے ذریعے دہرایا جانے لگا۔ تحریک انصاف کے قائدین نے وضاحتی بیان دینا شروع کردئیے۔ انگریزی محاورے والا نقصان مگر ہوچکا تھا۔ عمران مخالف جماعتوں کے سرکردہ رہ نما اب جارحانہ پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام کو یاد دلانا شروع ہوگئے ہیں کہ گزرے پیر کے روز زمان پارک لاہور میں مارچ 2023ء کے دن ہوئے فیصلوں کا تحریک انصاف کے قائد نے بالآخر’’اعتراف‘‘ کرلیا ہے کہ 9مئی کے دن جو واقعات ہوئے ان کی ’’منصوبہ بندی‘‘ کئی ماہ قبل ہوچکی تھی۔
’’اعترافی بیان‘‘ کا ڈھنڈوراجاری تھا تو یہ خبر بھی آگئی کہ پنجاب فرانزک لیبارٹری سے ایک ٹیم ایسی مشینوں کے ہمراہ اڈیالہ جیل کے پھیرے لگارہی ہے جو کسی ملزم کے بیان کو سچ یا جھوٹ ثابت کرنے والی چھلنی سے گزارتی ہے۔ اس عمل کو پولی گرافک ٹیسٹ کہاجاتا ہے۔ عمران خان اس کے لئے آمادہ نہیں ہورہے۔ وہ ہوگئے تو پاکستان کی تاریخ کے پہلے صف اوّل کے سیاست دان شمار ہوں گے جس کے بیان کردہ موقف کو پولی گرافک مشین سے گزارا گیا۔ ایسا ہوگیا تو شاید مستقبل میں حکومتی عہدوں پر فائز سیاستدانوں کو بھی اپنے ہر بیان کے بعد پولی گرافک ٹیسٹ دینا لازمی ہوجائے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت