اب تک ترکی فی الحال واحد ملک ہے جس نے اس کی سرکاری حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔یعنی یہ تنازعہ یونانی قوم پرست ارتھوڈاکس مسیحی نظریہ اور یونان کے ساتھ ضم ہونے بنام قبرص کے ترک نسل عوام کی آزاد رہنے کی خواہش کی وجہ سے پیدا ہوگیا۔ عصمت کورک اولو بتا رہے تھے کہ 1963میں یعنی آزادی کے تین سال بعد ہی ترک قبرصیوں کو جزیرے کے تین فیصد علاقے تک محدود کیا گیا۔ ہمارے شہری حقوق چھین لئے گئے۔ یہی قبرص مسئلہ کی ابتدا تھی، نہ کہ 1974کو جب ضامن ملک ترکیہ نے ہماری استدعا پر مداخلت کرکے ہمیں اپنے حقوق واپس دلوادئے۔فوجی بغاوت کے نتیجے میں ظہور پذیر ایک غیر منتخبہ حکومت کے یونان کے ساتھ الحاق کرنے کے چار روز بعد اگر ترکیہ کی افواج نے پیش قدمی نہ کی ہوتی، تو ہمارا حال آج ک کے غزہ سے بھی بدتر ہوتا۔ کورک اولو ، جو قبرص کے صدر کے نمائندے کی حیثیت سے 2020 میں مذاکراتی ٹیم کا حصہ بھی رہے ہیں، سے میں نے پوچھا کہ آخر اس اس مسئلہ کیلئے کیا قابل قبول حل ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عالمی برادری اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے اور متعصبانہ بھی ہے۔ وہ جنوبی قبرص کی حکومت کو پورے قبرص کی نمائیندہ حکومت تسلیم کرتے ہیں۔ یہ جنوبی قبرص کے ضد کی جڑ ہے اور وہ کسی بھی حل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، کیونکہ اسٹیٹس کوسے ان کو فائدہ ہے۔ وہ ہمارے ساتھ اقتدار میں اشتراک نہیں کرنا چاہتے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ہم نے ایک وفاق قائم کرنے کیلئے آدھی صدی تک بات چیت کی ۔ مگر جیسا کہ آئن سٹائن کا قول ہے کہ ایک ہی کام ایک ہی طرح کرکے مختلف نتائج کی توقع رکھنا پاگل پن ہے۔ ہم نے پچھلے 50سال تک ان کے ساتھ رہنے کیلئے یہی کیا۔ مگر اب اس کا وقت نکل چکا ہے۔ 2004 میں یونانی قبرصی فریق نے وفاق کے سلسلے میں ساڑھے چار سال کی بات چیت کے بعد ریفرنڈم کا منصوبہ پیش کیا جس کی بین الاقوامی برادری نے توثیق کی ۔ ہماری طرف کی آبادی نے 65% سے اسکو منظور کیا، جبکہ78% یونانی قبرصی فریق نے اسکو رد کردیا۔ مگر اس انکار کے باوجود یورپی یونین نے ان کو رکنیت دی۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ یہ رکنیت مسئلہ کو حل کرنے سے مشروط کی جاتی۔ ریفرنڈم کے نتائج کے ایک ہفتے بعد یونانی قبرصی فریق کو رکنیت دی گئی۔ میں نے پوچھا کہ یورپی یونین کی جب تشکیل ہو رہی تھی، تو ان ممالک نے اپنے باہمی تنازعات یعنی شمالی آئیر لینڈ، اٹلی اور سلواکیہ کے درمیاں ٹریسٹی تنازعہ، فن لینڈ اور سویڈن کے درمیان آلینڈ تنازعہ، فرانس اور اسپین کے درمیان انڈورا تنازعہ وغیرہ پہلے حل کئے ، اور پھر اقتصادی یونین کی طرف گامزن ہوگئے، تو انہوں نے قبرص تنازعہ پر ایسا رویہ کیوں اختیار نہیں کیا؟ تو سفیر نے ایک لمبی سانس لیکر کہا کہ اسی کو ناانصافی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے اپنے چارٹر کے مطابق کوئی ملک اسی صورت میں اس کا رکن بن سکتا ہے ،جب پہلے وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی حدود کے معاملات طے کرے۔ انہیں یونانی قبرص سے کہنا چاہیے تھا کہ جب تک کوئی معاہدہ یا تصفیہ نہیں ہو جاتا، تب تک رکنیت کا انتظار کریں۔ یونانی قبرصی فریق کو بس اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یورپی یونین کی رکنیت سے نوازا گیا، اور ترک قبرصی فریق ابھی بھی بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہے۔ اب کچھ عرصے سے ترک قبرص دوریاستی حل کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ترک پارلیمنٹ نے بھی ابھی حال ہی میں اسکی حمایت میں قرار دار بھی منظور کی۔ میں نے پوچھا کہ عالمی سفارت کاری میں تو اب زمینی حل کے بجائے عوامی حل کی اصطلاح چل پڑی ہے۔ کیا قبرص کے معاملے میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟ اس سوال پر عصمت کورک اولو نے کہا کہ پچاس سال تک ہم نے ان سے اپنے شہری حقوق کی باز یابی اور پھر ایک وفاق کی تجویز پر بات چیت کی۔ وفاق پر تو سبھی نے تائید بھی کی مگر انہوں نے ہی اس کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے ہی ہمیں دو ریاستی حل کو میز پر لانے پر مجبور کر دیا۔ وہ اپنے علاقے میں رہیں اور ہمیں بھی ایک اچھے پڑوسی کی طرح زندگی گذارنے دیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جزیرے پر دو ریاستیں موجود ہیں۔اس کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس جمہوری طور پر منتخب حکومت، صدر، پارلیمنٹ، عدالتیں، علاقہ، سب کچھ ہے۔ یعنی ریاست کے جو معیار مقرر کئے گئے ہیں ، وہ سبھی ہم پورا کرتے ہیں۔ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کا مطالبہ کرنا اور قبرص میں اسے مسترد کرنا یورپی یونین کی منافقت کے سوا اور کیا ہے۔قبرص کا اب دوبارہ اتحاد ممکن نہیں ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر دوسرے فریق کی ضد کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ لہذا ہمیں بھی اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا۔ خیر میں نے پوچھا کہ بحیرہ روم کے مشرقی خطے میں گیس کے بے شمار ذخائر دریافت ہو رہے ہیں، جن کی وجہ سے یہ خطہ تزویراتی لحاظ سے اہم بن گیا ہے۔ گزشتہ سال، نئی دہلی میں G-20 سربراہی اجلاس میں، بھارت، اسرائیل اور یونان نے بھارت-مشرق وسطی اور یورپ کو ملانے والے کوریڈور بنانے کا فیصلہ کیا، جو اسرائیل کی بندرگاہ حیفہ کو قبرص کے پانیوں کے ذریعے یونانی بندرگاہوں سے جوڑتا ہے۔ اس راہداری پر آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس سے آپ کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے؟ کورک اولو نے نہایت ہی متانت کے ساتھ جواب دیا کہ ہاں ہماری خود مختاری تو متاثر ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونانی قبرصی پوری دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ وہ پورے جزیرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 2003 میں، یونانی قبرصی فریق نے مصر، لبنان اور اسرائیل کے ساتھ یکطرفہ معاہدہ کیا، جس پر ہم نے اعتراض کیا۔اس کے جواب میں ہم نے ترکی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور گیس کی دریافت اور ڈرلنگ کے لیے ترک پٹرولیم تنظیم کیلئے شمال سے جنوب تک بلاکس مختص کر دیے۔ یہ وسائل قبرص کے دونوں خطوں کے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ ہمارے اور یونانی قبرصی فریق کے درمیان بحران میں تبدیل جائے۔ اسی لیے ہم نے یونانی قبرصی فریق کو قدرتی وسائل کے انتظام کے بارے میں تجاویز پیش کی ہیں تاکہ ان کا کنٹرول مشترکہ ہو لیکن یونانی قبرص نے ان کو مسترد کر دیا۔اسلئے ہم نے ترکی کی مدد سے اپنی طرف سے پھر گیس کی تلاش شروع کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے تو توانائی کمپنیوں سمیت تمام فریقین کی کانفرنس کی تجویز دی تھی، اس کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ مشرقی بحیرہ روم کو امن کے سمندر میں تبدیل کیا جائے۔ہمیں امید ہے کہ بھارت ہماری سمندری سرحدوں اور شیلف کا احترام کرے گا۔(جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز