اپنے ڈرائیور کو میں کہتا رہتا تھا کہ دیکھو! پولیس والوں کے ڈرائیوروں کی عقابی نظر ہونی چاہیے، اگرچہ کچھ مخبروں کو بھی یہ ٹاسک دیا ہوا ہے مگر تم بھی خاص طور پر دائیں بائیں نگاہ رکھو اور جونہی ٹارگٹ کے بارے میں کوئی clue ملے تو مجھے فورا اطلاع دو۔ ڈرائیور ہمیشہ یہی جواب دیتا سر! میں ہر وقت چوکنا رہتا ہوں اور ہر طرف نظر رکھتا ہوں، جونہی کوئی سراغ ملا اسی وقت آپ کو مطلع کروں گا مگر پچھلے دو تین ہفتوں سے اس کی طرف سے انتہائی مایوس کن جواب مِل رہا تھا۔
جب بھی اس سے پراگریس پوچھتا تو وہ نفی میں ایسے سر ہلاتا جیسے نون لیگ کے وزیر اِس سوال کا جواب دے رہے ہوں کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی؟ اس کی مایوسی اور مایوس کن قسم کی ناں سے میں خود مایوس ہوتا جارہا تھااوراب تو یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ ہمارے ٹارگٹ کا ملنا بھی ڈان کی طرح مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
لیکن اللہ کے ہاں دیر تو ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔ میرے لیے ٹارگٹ کا حصول چاہے کتنا مشکل ہو مگر کائناتوں کے خالق اور مالک کے لیے تو کچھ بھی مشکل نہیں۔ وہ ہدف تک ہماری رسائی کسی ایسے طریقے سے بھی ممکن بنا سکتا ہے جو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں۔ کوئی اسی طرح کی قبولیت کی گھڑی تھی جب میں نے نماز میں ٹارگٹ مل جانے کی دعا کی تھی۔
دعا کے چند منٹ بعد ہی میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون آن کیا تو ڈرائیور کاشف لائن پر تھا۔ آج خلافِ معمول اس کی آواز میں مایوسی کے بجائے خوشی اور excitement تھی۔ میں نے فورا ہدف کے بارے میں پوچھا کہ کوئی سراغ ملا ہے؟ اس نے پرجوش انداز میں جواب دیا سر! مبارک ہو! مل گیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا کسی مخبر نے اطلاع دی ہے؟ کہنے لگا نہیں سر میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔
میں نے تجسس میں پوچھا، کیا دیکھا ہے؟ کہنے لگا سر! ٹرک سے اترتے ہوئے خود دیکھا ہے۔ ذہن میں ٹارگٹ کی شبیہہ گھومنے لگی۔ یہ بھی سن رکھا تھا کہ اس قسم کے اہداف اکثر ٹرکوں پرہی آتے ہیں۔ میں نے پوچھا تم نے کتنے فاصلے سے اترتے ہوئے دیکھا ہے؟ ڈرائیور کہنے لگا سر! فاصلہ چند فٹ سے زیادہ نہیں تھا میں نے ڈرائیور سے کہا کوئی نشانی بتا اس نے پورا حلیہ بتادیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ میرا ڈرائیور ٹارگٹ کے قریب پہنچ چکا ہے۔
میں نے اپنی آخری تسلی کے لیے پوچھا، ٹرک کہاں سے آیا ہے؟ اس نے کہا سر! میں نے یہ بھی پتہ کرلیا ہے کہ ٹرک افغانستان سے آیا ہے اور ڈرائیور مقامی قبائلی ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چیتے کی سی پھرتی سے اٹھا، اپنا پسٹل جیب میں ڈالا اور ڈرائیور سے کہا فوری طور پر لوکیشن بتا میں خود آرہا ہوں۔
یہ فقرہ اس کے لیے نیا نہیں تھا، وہ جانتا تھا کہ میں نے پولیس سروس کے دوران یہ فقرہ سیکڑوں بار بولا ہے اور یہ اس وقت ادا ہوتا تھا جب کسی انتہائی مطلوب اشتہاری مجرم یا ڈاکو یا اغوا کار کا سراغ ملنے کی اطلاع ملتی تھی۔ ڈرائیور کاشف نے کہا سر! بہتر ہے کہ عزیزاللہ کو ساتھ لیتے آئیں، وہ پٹھان ہے پوچھ گچھ کی ضرورت پڑے گی تو وہ پشتو میں بات کرلے گا۔ ٹھیک ہے اسے لیتا آؤں گا۔
وہ پھر بولا سر! آپ جب ریڈ پر جایا کرتے تھے تو گن مین بابر خان آپ کے ساتھ جاتا تھا، وہ بھی ساتھ آرہا ہے ناں؟ نہیں بابر خان چھٹی پر تھا اس لیے وہ ساتھ نہیں آیا ، میں نے جواب دیا۔ پندرہ سے بیس منٹ میں میں جائے وقوعہ پر پہنچ گیا، کاشف نے آگے بڑھ کر کہا سر! آپ ایک نظر دیکھ لیں، پھر ہمیں اشارے سے بتادیں، میں اور عزیزاللہ اٹھالیں گے۔ میں نے کہا نہیں میں اشارے کے بجائے ہاتھ رکھ دوںگا، جونہی ہاتھ رکھوں اسی وقت اٹھا لینا۔ اِس دوران ایک مونچھوں والا چھری بردار قبائلی نوجوان تقریبا 15 فٹ کے فاصلے پر کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھنے لگا۔ جب اس کا مجھ سے صرف دو فٹ کا فاصلہ رہ گیا تو اس نے چھری لہرائی، ہم تینوں سنبھل کر تھوڑا سا پیچھے ہوگئے۔
وہ مزید آگے بڑھا اور بولا صاب ٹکی لگادوں ، کابل کا تربوز ہے، سرخ بھی ہے اور میٹھا بھی۔ میں نے کہا ہاں ایک پر ٹکی لگا دیکھتے ہیں کیسا نکلتا ہے۔ اس نے ایک لکیر دار تربوز پر ٹکی لگائی تو واقعی لال سرخ تھا۔ میں نے قیمت پوچھی تو بولا، صاب! دونوں دس دس کلو کے ہیں۔ دونوں کے بائیس سو بنتے ہیں۔۔۔ آپ دو ہزار دے دیں ۔ میں نے سوچا کہ بڑے اسٹوروں پر رعایت کرانا تو جائز ہے مگر ایک مزدور آدمی سے دو سو روپے رعایت کرانا شرم کی بات ہے۔
میرے لیے تو دو سو کی اہمیت نہیں مگر شدید گرمی میں سڑک کے کنارے دیہاڑی لگانے والے کے لیے دو سو روپے کی بڑی اہمیت ہے، لہذا ایک مزدور سے دو سو کی بخشیش لینا سراسر ناجائز ہے۔ میں نے اسے بائیس سو روپے دیے، دونوں تربوز گاڑی میں رکھے اور گھر آگیا۔ عزیزاللہ نے دونوں کو غسل کرانے کے بعد فریج کے اندر پہنچا دیا تاکہ وہ ٹھنڈے ٹھار ماحول میں استراحت فرماسکیں۔ دو دن سے سخت گرمی اور حبس تھی مگر جب سہ پہرکو ٹکی زدہ ٹھنڈے اور میٹھے تربوز سے دو دو ہاتھ کیے تو گرمی اور حبس کے تمام ناخوشگوار اثرات اس طرح غائب ہوئے جس طرح ایک پارٹی کے لیڈر 9 مئی کا نام سن کر غائب ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر حصولِ تربوز کا ذکر کرنے کی دیر تھی کہ شرق وغرب سے فدایانِ تربوز کے پیغام آنے شروع ہوگئے، دنیا کے ہر برِاعظم سے تربوز کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے میسج موصول ہوئے۔ کچھ نے تو عاشقانِ تربوز کی عالمی کانفرنس بلانے اور تربوز کو اس کا اصل مقام دلانے کے لیے جدوجہد کا اعلان کردیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ تربوز اعلی طبی صفات کا حامل ہے، اس میں تکبر نہیں، درویشی اور عاجزی ہے۔ فیس بک اور واٹس اپ پرdebate شروع ہوگئی۔
عاشقان کے بعد حاسدان بھی متحرک ہوگئے، سب سے پہلے سرزمینِ ملتان سے تربوز گردی نہیں چلے گی کا نعرہ بلند ہوا اور تربوز کو نیچا دکھانے کے لیے آم کو مقابلے پر لاکھڑا کیا گیا۔ یہ کہہ کر کہ آم شاہِ دسترخوان ہے آم پرستوں نے تربوز کی شان میں کچھ نازیبا کلمات بھی کہے ان کے جواب میں کہا گیا کہ آم اگر بادشاہ ہے تو تربوز بھی کوئی فارم 47 والا پھل نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ فقیر منش اور خاک نشین ہے اور بڑا بول نہیں بولتا، مگر وہ لوگ تربوز دشمنی میں اس حد تک چلے گئے کہ یہ گستاخانہ جملہ بھی کہہ ڈالا کہ ایشیا کی اشرافیہ تو تربوز کو پھلوں میں شمار ہی نہیں کرتی ان کی اس ہر زہ سرائی پر مڈل ایسٹ کے تربوز دوستوں نے انھیں منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ صلاح الدین ایوبی سمیت دنیا کے تمام بڑے فاتحین کو جو فتوحات ملیں اس کی ایک بڑی وجہ ان کی تربوز پروری تھی۔ اہم ترین ایجادات صرف ان سائنسدانوں کو نصیب ہوئیں جو تربوز خوری میں مشہور تھے۔
ایک صاحبِ دانش نے راقم کی تربوز شناسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے تربوز شناسی، مردم شناسی سے کہیں زیادہ ضروری اور مفید ہے۔ آج ہم جن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اس کی بڑی وجہ ہمارے سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹوں میں تربوز شناسی کا فقدان ہے۔ تربوز کے حامی حکما بھی نسخوں سمیت میدان میں اتر پڑے اور انھوں نے کئی بادشاہوں کی مثالیں دے کر ثابت کیا کہ تربوز جسمانی اعضا کو قوی بناتا ہے، دماغ کو بیدار کرتا اور گردے بالکل صاف کردیتا ہے۔ اِس پر ایک تربوز مخالف بول پڑا صرف گردوں سے بات نہیں بنے گی یہاں تو پورے جسم کی صفائی درکار ہے۔
اس کے جواب میں ایک ن لیگی بولا تمہارا اشارہ فوج کی جانب لگتا ہے۔ تم 9مئی والے ہو، یاد رکھو! اگر 9 مئی سے بچ بھی گئے تو تم پر آرٹیکل چھ لگادیں گے۔ اس پر پی ٹی آئی کے حامی بول اٹھے تمہارا آرٹیکل چھ بڑا ڈھل ڈھل پڑتا ہے۔ اسے سنبھال کر رکھو! یہ تمہارے اپنے اوپر ہی نہ لگ جائے۔ ایک دوست نے افغانستان کے تربوز کھانے پر خوامخواہ اعتراض جڑدیا۔ او بھائی! ہمیں تربوز کھانے سے غرض ہے اس کی جائے پیدائش جاننے سے نہیں ۔ کچھ فرنیکفرٹ میں چند گمراہ قسم کے نوجوانوں کی گھٹیا حرکت کا ذکر لے آئے۔
گزارش ہے کہ تربوز پھل ہے اس کا ان گھٹیا حرکتوں سے کیا لینا دینا، ان تربوز دشمنوں سے کوئی پوچھے کہ دشمن ملک کا پیازتو چھلکا اتارے بغیر ہی کھاتے رہے ہو، اپنے تن بدن کی بدبو کم کرنے کے لیے فرانس کے کلون دن میں چار چار بار استعمال کرتے ہو مگر غصہ آجا کر بیچارے تربوز پرنکال رہے ہو۔ بلاشبہ افغانستان کے کچھ باشندے گمراہ ہوئے ہیں مگر وہاں کے تربوزتو گمراہ نہیں ہوئے۔ ان کی مٹھاس، پاکستان سے ان کی محبت کا پتہ دیتی ہے اور ان کا ذائقہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ پاکستان کے غدار نہیں وفادار ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس