فلسطین کے تنازعہ نے جہاں امت مسلمہ سمیت پوری دنیا کو لہو لہان کر کے رکھ دیا ہے، وہیں غزہ کے ساحل سے تین سو کلومیٹر دور قبرص کا تنازعہ بھی امن عالم کیلئے پچھلے ساٹھ سالوں سے خطرہ بنا ہوا ہے۔ دونوں متنازعہ خطے بحیرہ روم کے مشرق میں ہیں اور ایک وقت اس سمندر میں ، جو بحر اوقیانوس یا بحر ظلمات کی شاخ ہے، مسلم حکمرانوں نے اپنے سنہری ادوار میں گھوڑے اور جہاز دوڑا دیے تھے ۔ ترک عثمانیہ سلطنت کے امیر البحر خیر الدین باربروسہ اور اس کے جانشینوں نے 16ویں صدی میں اس سمندر میں ایسی دھاک بٹھائی تھی، کہ جس کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔اس سمندر میں تقریبا تمام جزائر، ان کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنے تھے۔ جزیرہ قبرص کے تنازعہ کی وجہ سے 1987سے لیکر اب تک ترکیہ اور یونان چار بار جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔ دونوں امریکہ فوجی اتحاد ناٹو کے رکن ممالک ہیں اور مہلک ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ 20جولائی کو جب ترک اکثریتی آبادی پر مشتمل شمالی قبرص آزادی کی 50 ویں سالگرہ اور دوسری طرف یونانی مسیحی آبادی پر مشتمل جنوبی قبرص سوگ منا رہا تھا، تو میں نے ترکی میں شمالی قبرص کے سفیر عصمت کورک اولو سے اس مسئلہ کے بارے میں تفصیلات جاننے کیلئے رابط کیا۔ ترکیہ کے ایک معروف صحافی مہمت اوز ترک کی معیت میں اگلے روز انقرہ شہر کے چنکایا ضلع میں واقع ان کے سفارت خانے پہنچ گئے۔ چونکہ آزادی کی سالگرہ کی تقریبات کے سلسلے میں وہ خاصے مصروف تھے، اس لئے انہوں نے صبح سویرے کا وقت دیا تھا۔ جب ہم سفارت خانے پہنچے ، تو وہ خود ہی گیٹ پر موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں ویٹنگ روم میں بٹھایا اور ان کے پریس آفیسر بولینت ہوکسان کی آمد کے بعد اپنے کمرے میں بلایا۔ دراز قداور تیز آنکھوں والی اس شخصیت سے میں اس سے قبل ایک سفارتی پارٹی میں ملا تھا۔ مگر ان کے وسیع المطالعہ ہونے اور ان کی ذہانت اور وسیع سفارتی تجربہ سے پہلی بار استفادہ ہونے کا موقعہ مل رہا تھا۔ عصمت کورک اولو کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ترکی میں اعلی تعلیم سے فراغت کے بعدقبرص کی وزارت خارجہ جوائن کرنے کے بعد وہ پاکستان اور پھر بعد میں اسرائیل میں اپنے ملک کے نمائندے رہے ہیں ۔ میری یاداشت میں دوسرا ایسا کوئی سفارت کار نہیں ہے، جس نے پاکستان اور اسرائیل یعنی دو متضاد اور پھر مذہبی شناخت پر قائم ہونے والی ان منفرد مملکتوں میں پوسٹنگ کی ہو۔ وہ اگر ان ممالک میں اپنے تجربات پر مبنی یاداشت ترتیب دیتے ہیں، تو وہ بڑی دلچسپ ہوگی۔ گو کہ سبھی تنازعوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، قبرص تنازعہ کے خاکے کسی حد تک مسئلہ کشمیر سے ملتے جلتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی طرح بحیرہ ر وم میں یہ خطہ یونان اور ترکی کے درمیان باعث نزاع بنا ہوا ہے۔ دنیا کے قدیم ترین پانی کے کنووں کیلئے مشہور قبرص کے جزیرہ پر1887میں سلطنت عثمانیہ کی عملداری ختم ہوئی اور برطانیہ نے قبضہ کرلیا۔ 20ویں صدی کے آغاز میں ہی جزیرہ کی مسیحی آبادی یونان کے ساتھ الحاق کرکے اس کو ضم کرنے کی کوشاں تھی۔ برطانوی مسیحی آبادی پرو ٹسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ قبرص کی آبادی یونان کی طرح آرتھوڈ اکس چرچ ماننے والے عیسائیوں کی ہے۔ دوسری طرف ترک آبادی اس کو ایک آزاد مملکت کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی۔ میں نے سوالات کا آغاز کرتے ہوئے، عصمت کورک اولو سے پوچھا کہ قبرص تقریبا 50 سالوں سے عالمی سطح پر ایک موضوع بنا ہوا ہے۔آخر کون اس مسئلہ کو حل ہونے سے روک رہا ہے؟ جواب شروع کرنے سے قبل انہوں نے اپنے لئے بغیر دودھ والی تلخ ترک کافی اور ہمارے لئے روایتی ترک چائے منگائی تھی، جو ان کے اسٹاف نے میز پر رکھ دی تھی۔ کافی کا کپ ہاتھ میں لیکر انہوں نے پہلے تصحیح کی کہ یہ پچاس سال پرانامسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کی بنیاد 1963میں ڈالی گئی۔ اس کی طوالت یورپی ممالک کے تعصب کی واضح نشاندہی کرتی ہے۔ قبرص نے 16 اگست 1960 کو انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ چونکہ اسکی آبادی دو بڑی مذہبی اور لسانی برادریوں یونانیوں اور ترکوں پر مشتمل تھی ، اس لئے دونوں کو حکومت میں حصہ داری دینے کیلئے آئینی انتظامات کئے گئے۔ یعنی یونانی مسیحی صدر ہوگا، تو نائب صدر قبرصی مسلم ترک ہوگا۔ وزرا کی کونسل میں سات یونانی اور تین ترک ہونگے۔ قبرص کی آزادی اور خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے برطانیہ، یونان اور ترکی کو ضامن ممالک قرار دیا گیا۔مگر تین سال بعد ہی صدر آرچ بشپ ماکاریوس نے ترک شہریوں کے اختیارات کو ختم کرنے کے لیے تحویز پیش کی، جس سے خونی فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔کئی لاکھ ترک قبرصی بے گھر ہوگئے۔ جولائی 1974 میں، قبرصی نیشنل گارڈ نے بغاوت کرکے نیکوس سمپسن کو صدر کے عہدے پر فائز کیا، جس نے یونان کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کردیا اور یونانی فوج قبرص میں داخل ہوگئی۔ ترکی میں اس وقت وزیر اعظم بولنت ایجاوت، نجم الدین اربکان کی پارٹی کی حمایت سے برسر اقتدار تھے۔ انہوں نے پہلے تو اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ، پھر دوسرے ضامن ملک برطانیہ سے فریاد کی مگر جب کسی طرف سے جواب نہیں آیا تو 20 جولائی کو، ترک فضائیہ اور چھاتہ بردار فوج قبرص میں داخل ہوگئیں۔اگلے چار روز تک یونانی فوج نے شمال کا علاقہ خالی کرکے جنوب کی طرف پسپائی اختیار کی۔ اربکان نے پورے قبرص پر قبضہ کرنے کی وکالت کی تھی، کیونکہ یونانی فوج شکست سے دوچار ہو رہی تھی۔ مگر تب تک امریکہ نے ایجاوت کو قائل کروایا کہ فوجی کاروائی ختم کرکے اس کو گفت شنید سے حل کیا جائیگا اور اس کیلئے وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریگا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں جزیرہ تقسیم ہوگیا۔ تقریبا 170,000 یونانی شمال سے فرار ہو کر جنوب کی طرف منتقل ہوگئے اور ان کی جگہ تقریبا 40,000 ترک قبرصی جنوب سے شمال کی طرف آگئے ۔مگر امریکہ کی یقین دہانی کے بعد شروع ہوئی گفت و شنید کا کوئی سرا نظر نہیں آرہا تھا۔ یونانی قبرصی تو یونان کے ساتھ ضم ہونے پربضد تھے۔ ایک مشترکہ و فاق کے اندر دو الگ الگ مملکتوں کی تشکیل پر بات چیت چل رہی تھی اور اس پر رضامندی طے پائی گئی تھی، مگر یونانی قبرص کی حکومت عملی اقدامات اٹھانے سے گریزا ں تھی۔ جس کی وجہ سے 1983میں باضابطہ ترکش ری پبلک آف نارتھ سائپرس یعنی TRNCکا قیام عمل میں لایا گیا۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92