اگرچہ ایران میں فارسی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات و جرائد کا غلبہ اور غلغلہ ہے لیکن کچھ انگریزی اخبارات بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تہران ٹائمز کو ایران کا ممتاز انگریزی اخبار کہا جاتا ہے ۔ ایران کے آخری بادشاہ ، جس کا خاتمہ آیت اللہ روح اللہ خمینی کے ہاتھوں ہوا، کے دورِ اقتدار میں فارسی اور انگریزی میں شایع ہونے والے روزنامہ کیہان کو ممتاز ترین مقام حاصل تھا۔ امیر طاہری اِس کے آخری ایڈیٹر تھے۔
انقلابِ ایران نے اِس اخبار کا بھی گلہ گھونٹ دیا اور امیر طاہری نے بھی ایران سے فرار ہوکر فرانس میں سیاسی پناہ لے لی۔ 82سالہ امیر طاہری اب تک وہیں ہیں اور دنیا کے مشہور اخبارات میں سنڈیکیٹڈ کالم لکھتے ہیں ۔ ان کی بیشتر تحریریں ردِ انقلاب پر مشتمل ہوتی ہیں۔ 45سال قبل ، انقلابِ ایران کے فورا بعد، جناب سید محمد حسینی بہشتی نے تہران ٹائمز کی بنیادیں رکھیں ۔ وہ 1981 میں فوت ہوگئے تھے مگر ان کا تہران ٹائمز کی شکل میں لگایا گیا پودا اب ایک تناور درخت بن چکا ہے ۔ 12جولائی2024کو اِسی اخبار میں نو منتخب ایرانی صدرجناب مسعود پزشکیان، کا ایک آرٹیکل فرنٹ پیج پر شایع ہوا ہے ۔ اِس کی ہیڈ لائن یوں تھی :My message to the new world۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مضمون نئے ایرانی صدر کے عالمی خیالات اور عزائم کا آئینہ ہے ۔
اِس آرٹیکل میں ایران کے نومنتخب صدر ،جناب مسعود پزشکیان، نے لکھا ہے : ہم یورپی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ تاہم ساتھ ہی انھوں نے ایران پر امریکی پابندیوں کے خلاف یورپ کی جانب سے خاموشی پر رنج کا اظہار بھی کیا ہے۔ جناب پزشکیان مزید لکھتے ہیں:2015کے معاہدے سے امریکی دستبرداری کے بعد یورپی ممالک نے تہران کو پابندیوں سے بچانے کی کوشش کا وعدہ کیا تھا لیکن یورپی ممالک ان تمام وعدوں سے مکر گئے۔
اس وعدہ خلافی کے باوجود ہم باہمی احترام اور برابری پر مبنی تعلقات کی بحالی کے خواہش مند ہیں اور یورپ کے ساتھ تعمیری بات چیت کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے 2018 میں اس جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کیے جانے کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں بحال کر دی گئی تھیں۔
اس معاہدے کا بنیادی مقصد ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنا تھا۔ اِسی پس منظر میں پزشکیان لکھتے ہیں: دونوں فریقین متعدد شعبوں میں باہمی تعاون سے مستفید ہو سکتے ہیں لیکن اس باہمی تعلق میں یورپی نام نہاد اخلاقی بالادستی کی سوچ کو بالائے طاق رکھا جانا چاہیے۔اِسی دوران یورپی یونین کی ترجمان، نبیلہ مسرالی، نے پزشکیان کو ان کے انتخاب پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ 27 رکنی بلاک یورپی یونین کی پالیسی کے مطابق ہم نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ نو منتخب ایرانی صدر اپنے آرٹیکل کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ایران نے دبا کا جواب دیا ہے نہ دے گا۔
اور یہ کہ روس ہمارا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے اور یہ کہ ہم چین کے ساتھ بھی زیادہ وسیع تعاون کی امید کرتے ہیں اور یہ کہ ایران اپنے عرب ہمسایہ ممالک اور ترکیہ کے ساتھ اقتصادی تعاون مضبوط کرنے کا خواہش مند ہے۔نئے ایرانی صدرصاحب نے اِس آرٹیکل میں امریکا، یورپی یونین، ترکیے، چین اور سعودی عرب کو زیادہ اہمیت دی ہے ۔ اِسی سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ مسعود پزشکیان صاحب بطورِ ایرانی صدر کن ممالک پر فوکس کیے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان کے عزائم کیا ہیں ۔
اِس آرٹیکل میں نہ تو پاکستان کا ذکر واضح طور پر کیا گیا ہے اور نہ ہی بھارت کا ۔ جارح و ظالم اسرائیل کا ذکر بھی نظر نہیں آیا اور نہ ہی مظلوم اہلِ غزہ کا ۔لیکن اِس کا ہرگز یہ مطلب و معنی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی اہمیت و ہمسائیگی کو نظر انداز کر گئے ہیں ۔ ایسا کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔ اِس آرٹیکل میں نو منتخب ایرانی صدر نے ایران کے اندرونی معاملات پر بھی لب کشائی نہیں کی ہے ۔ وہ ایرانی مقتدر ترین ملاوں کی جانب سے ایرانی خواتین پر نافذ و مسلط کردہ حجاب کی سختیوں بارے اپنا مخصوص و منفرد نکتہ نظر رکھتے ہیں ۔ اِس جانب بھی آرٹیکل میں خاموش ہی نظر آئے ہیں ۔ ایرانی صدر منتخب ہو کر انھیں ایرانی سپریم لیڈر اور ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے کھینچے گئے متعدد حصاروں کا شعور و ادراک ہو گیا ہو گا ۔
ہم پاکستانی مگر خواہش اور تمنا رکھتے ہیں کہ جناب مسعود پزشکیان کے دورِ صدارت میں ایران و پاکستان کے تعلقات پہلے سے بھی زیادہ مستحکم اور مامون ہوں گے ۔ ان کے دورِ حکومت میں ایران و پاکستان کی مشترکہ سرحدیں پر امن رہیں گی ۔ سرحدی تجارت میں اضافہ بھی ہوگا اور ایران و پاکستانی سرحدات پر اسمگلنگ میں کمی بھی ہوگی کہ اسمگلنگ دونوں برادر و ہمسایہ ممالک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے ۔
ایران و پاکستان مشترکہ سرحد پر ہونے والی اسمگلنگ (خصوصی طور پر تیل کی) سے پاکستان زیادہ منفی طور پر متاثر ہورہا ہے۔ ہم نئے ایرانی صدر سے بحیثیتِ مجموعی خیر ہی کے متمنی و خواہشمند ہیں ، اگرچہ مسعود پزشکیان صاحب نے کرنا وہی ہے جو ایرانی سپریم لیڈر کہیں گے ۔ تعمیری اور صحتمند بات بہرحال یہ ہے کہ نو منتخب ایرانی صدر نے مذکورہ آرٹیکل میں عالمی تعلقات بارے اپنی سوچ و فہم کا خاکہ جاری کر دیا ہے ۔ یہ خاکہ مغربی ممالک اور شمالی امریکا کو پیغام بھی ہے ۔ یہ پیغام ایران کو عالمی تنہائی سے نجات بھی دلا سکتا ہے ۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ جس تاریخ کو تہران ٹائمز نے نومنتخب ایرانی صدر کا پالیسی آرٹیکل شایع کیا، تقریبا اسی تاریخ کے آس پاس تہران ٹائمز نے ایران میں متعین پاکستانی سفیر ، جناب محمد مدثر ٹیپو، کا ایک مفصل انٹرویو بھی اپنے صفحہ اول پر شایع کیا ۔ اِس انٹرویو کی سرخی یوں تھی:Cooperation will continue to grow under president elect Pezeshkian پاکستانی سفیر صاحب نے خود تہران ٹائمز کے ہیڈ آفس کا دورہ کیا۔
اِس دوران وہ مذکورہ اخبار کے سی ای او اور سینئر عملے سے بھی ملے ۔ دفتر ہی میں ان کا انٹرویو عمل میں لایا گیا۔ جناب محمد مدثر ٹیپو سے تہران ٹائمز نے پانچ اہم اور بنیادی سوال کیے ۔ یہ سوالات پاک ایران سفارتی و تجارتی تعلقات ، اسرائیل و غزہ بارے پاکستان کی پالیسی و سوچ ، پاک ایران عوام کے باہمی کلچرل تعلقات ، افغانستان کے سیاسی و معاشی استحکام کے لیے پاکستانی کردار اور ایران، پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ کو محیط تھے ۔
پاکستانی سفیر، محمد مدثر ٹیپو، نے نہایت شاندار اسلوب میں سبھی سوالات کے اطمینان بخش جواب دیتے ہوئے کہا:ایران کا نہایت شاندار مستقبل ہے۔ پاکستان ، ایران سے ہر شعبہ حیات میں خوبصورت تعلقات قائم کرنے کا خواہاں بھی ہے اور پہلے سے جاری تعلقات میں مزید استحکام کا متمنی بھی۔ نئے ایرانی صدر کے انتخاب پر وزیر اعظم پاکستان نے سب سے پہلے مبارکباد کا پیغام دیا ۔ پاکستان نے واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان ، ایران سے تعلقات میں مضبوطی اور پائیداری چاہتا ہے۔
دونوں ممالک باہمی تجارت میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لیے بھی کوشاں ہیں ۔ایران پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ پر ہماری تعمیری بات چیت جاری ہے ۔اِس کا مثبت نتیجہ ہی نکلے گا۔ پاکستان اور ایران ، دونوں ہی افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام کے خواہاں ہیں۔ جناب محمد مدثر ٹیپو کا یہ انٹرویو پاک ایران تعلقات میں مزید بہتری کا سبب بنے گا۔ انشا اللہ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس